
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ کسی دعوت میں سب سے پہلے کھانا چھوڑتے ہیں تو کوئی چاچا جان ٹوکتے ہیں، بیٹا، تمہارے تو ہڈیوں پر کھال ہی رہ گئی ہے، کچھ کھایا پیا کرو! اور اگر آپ نے دوسرا روٹی کا ٹکڑا لے لیا تو خالہ کہتی ہیں، لڑکیوں کو موٹاپے سے بچنا چاہیے، ورنہ رشتے کیسے آئیں گے؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا جسم آپ کی پہچان بن گیا ہے؟ جیسے بازار میں لٹکے ہوئے کپڑوں کے تھان، جہاں ایکسٹرا اسمال اور ایکسٹرا لارج کے لیبل آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کس کیٹیگری کے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ “اگر میرا جسم بدل جائے تو کیا لوگ مجھے زیادہ پیار کریں گے؟”
ہمارا معاشرہ جسمانی ساخت کو ایسے پرکھتا ہے جیسے کسی مشین کا پرزہ۔ ہر کوئی اپنی آنکھوں میں ایک آئیڈیل پیمانہ لیے پھرتا ہے، اور جو اس پیمانے پر پورا نہ اترے، اسے چھلنی سے گزار دیا جاتا ہے۔ یہ چھانٹی صرف ظاہری ساخت تک نہیں، بلکہ ہمارے اندر تک سرایت کر جاتی ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کا یہ زہر ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری قیمت ہماری جِلد کے نیچے نہیں، بلکہ اُس کے اوپر ہے۔
حقیقی زندگی کے وہ منظر جنہیں ہم روز دیکھتے ہیں مگر چُپ رہتے ہیں:
وہ لڑکی جو چائے کی دعوت سے اس لیے انکار کر دیتی ہے کہ اس کی کمر کے گرد ٹائر نظر آئیں گے۔
وہ نوجوان جو جم میں 2 گھنٹے پسینہ بہاتا ہےمگر پھر بھی سمندر جانے سے گھبراتا ہے کیونکہ اس کا سینہ کمزور لگتا ہے۔
وہ والدین جو بیٹی کو گورا ہو جاؤ والی کریمز گفٹ کرتے ہیں، جیسے اس کی ذہانت کا رنگ اس کے رنگت سے ہلکا ہے۔
وہ جملے جو ہماری روح پر چھریاں چلاتے ہیں:
تمہارا چہرہ تو بالکل ماں جیسا ہے، مگر قد تو باپ جیسا نہیں!
تمہیں تو شادی کے بعد خود بخود موٹاپا ہو جائے گا! (جیسے یہ کوئی فطری قانون ہو)۔
تمہارے ہم عمر لڑکیاں تو فٹ ہیں، تم نے کیوں نہیں کوشش کی؟
کیا آپ جانتے ہیں
خالی پیٹ رہنا اور خالی دل رہنا میں فرق ہے۔ لوگ آپ کے وزن پر تبصرے کرتے ہیں مگر یہ نہیں پوچھتے کہ آپ کے دل کا وزن کیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں سُپر ماڈل کا معیار وہی ہے جو 90% خواتین اور مردوں کے لیے ناممکن ہے۔ پھر بھی ہم اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں جیسے کسی امتحان کے لیے۔
جسمانی تنقید کا زہر صرف لڑکیوں تک محدود نہیں۔ لڑکے بھی دبلا پتلا یا کمزور ہونے پر طنز سنتے ہیں، مگر انہیں مرد بنو کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔
حل کا راستہ: آئینے کو اُلٹا پکڑو!
اپنے جسم سے دوستی کرو۔ جس طرح آپ کسی دوست کے قد یا وزن پر اس سے محبت نہیں کرتے، اپنے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرو۔
تبصرے کرنے والوں سے پوچھو: کیا آپ میری صحت کے بارے میں پریشان ہیں یا میری شکل کے بارے میں؟
یاد رکھو: جس معاشرے میں گھی کو صحت کی علامت سمجھا جاتا ہو، وہاں کیلوریز گننا ہی بیوقوفی ہے!
ہمارے جسم ہمیں چلنے، دوڑنے، ہنسنے اور جینے کے لیے ملے ہیں۔ انہیں کسی میگزین کے کور پیج یا رشتے کے لیے فٹ ہونے کی مشین نہ بنائیں۔ خود اعتمادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے آپ کو بدلو، بلکہ یہ کہ آپ اپنے آپ کو اُس دنیا کے لیے تیار کرو جو آپ کو بدلنا چاہتی ہے۔ آپ کے جسم پر تنقید کرنے والے لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کی سب سے خوبصورت ساخت اس کا دل ہوتا ہے۔