
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کہتے ہیں بیٹا رات دس بجے تک جاگے گا تو پڑھائی کیسے ہوگی؟
اور آپ کی بیوی کہتی ہیں اسے نیند پوری کرنے دو، کل اسکے امتحان ہیں! تو یہ بحث صرف نیند اور پڑھائی تک محدود رہتی ہے؟ یا پھر یہ آپ کے بچپن کے خوابوں، اپنی ماں کے ڈانٹے ہوئے جملوں، اور معاشرے کی کامیاب اولاد کی تعریف کے درمیان ایک خاموش جنگ بن جاتی ہے؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ جب آپ اور آپ کے ساتھی اولاد کی پرورش کے معاملے پر ٹکراتے ہیں تو دراصل آپ دونوں اپنے ماضی، اپنے خوف، اور اپنی اُس کہانی کو جھٹک رہے ہوتے ہیں جو آپ نے کبھی اپنے لیے لکھی تھی؟
اور سنیے، جب نانی اماں کہتی ہیں ہمارے زمانے میں تو ہم نے بچوں کو ڈنڈے سے پالا تھا! اور آپ کی بہن کہتی ہے بھائی صاحب، اب تو Positive Parenting کا زمانہ ہے! تو کیا یہ محض ایک نسل کا ٹکراؤ ہے؟ یا پھر یہ اُس سماج کی عکاسی ہے جو اپنی روایات اور جدیدیت کے درمیان ڈگمگا رہا ہے؟
اولاد کی پرورش میں اختلافات کا مطلب صرف رائے کا فرق نہیں، بلکہ یہ ہماری نفسیات، ہمارے ماضی، اور معاشرتی دباؤ کا ایک گہرا کھیل ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اِن اختلافات کو “جیت یا ہار کی جنگ سمجھنے لگیں، حالانکہ حل صرف سمجھوتے میں پوشیدہ ہے۔
تمہاری ماں کبھی تمہیں ایسا کرنے نہیں دیتی تھی!
یہ جملہ کتنی بار آپ کے گھر گونجا ہے؟ یاد رکھیں، پرورش کے اختلافات اکثر تم vs میں نہیں بلکہ ہم vs مسئلہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ بچے کو ٹیوشن پر بھیجنا چاہتے ہیں اور ساتھی کہتا ہے کہ اسے کھیلنے دو، تو پہلا سوال یہ ہو کہ کیا ہم دونوں کی بنیادی فکر بچے کی بہتری ہے؟ جواب ہاں میں ہوگا، بس پھر راستہ نکل آئے گا۔
نانی اماں کا نسخہ vs گوگل ڈاکٹر
پاکستانی گھرانوں میں یہ جنگ روز کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ بچے کو بخار ہو تو نانی اماں کہتی ہیں سرسوں کا تیل گرم کر کے مالش کرو! اور آپ کی بہن واٹس ایپ پر بھیجتی ہے Paracetamol کا ڈوز دو! تو حل کیا ہو؟ دونوں کو ٹیم بنائیں! مالش بھی کریں اور ڈاکٹر کو بھی دکھائیں۔ کیونکہ پرانی حکمت اور جدید سائنس دونوں ہی آپ کے حق میں ہیں۔
کیا لوگ کہیں گے؟
یہ وہ جملہ ہے جو پاکستانی والدین کو سب سے زیادہ کمزور کرتا ہے۔ بچہ گھر میں انگریزی بولے یا اردو؟ اسکول میں کس قسم کی یونیفارم پہنے؟ یہ فیصلے اکثر معاشرے کی آنکھوں سے کیے جاتے ہیں۔ یاد دلائیں وہ لوگ جن کا آپ کو خیال ہے، وہ تو کل کو آپ کے بچے کے امتحانی رزلٹ پر بھی تبصرہ کرنے آئیں گے۔ کیا اُن کی رائے آپ کے بچے کی خوشی سے زیادہ اہم ہے؟
بچہ: چپ چاپ تماشائی یا چالاک ڈپلومیٹ؟
حیران ہوئے نا؟ جب ماں باپ بحث کرتے ہیں تو بچے اکثر ایک فائدہ اٹھانے والا پلان بنا رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر امی نے آج کہا کہ چاکلیٹ نہیں ملے گی، تو ابا سے مانگتے ہیں! اس لیے، بچوں کے سامنے کبھی ایک دوسرے کو کم نہ کریں۔ اکٹھے ہو کر فیصلہ کریں، اور پھر بچے کو یہ کہہ کر اعتماد دیں: ہم دونوں نے مل کر یہ طے کیا ہے۔
میرے خواب vs تیری خواہشات
اکثر والدین اپنے بچوں کو اپنی ناکامیوں کا دوسرا موقع سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر نہ بن سکا، میرا بیٹا بنے گا! مگر کیا آپ کے بیٹے کی انگلیاں پینٹ برش پکڑنے کے لیے بنی ہیں؟ یاد رکھیں، بچہ آپ کا ریٹائرمنٹ پلان نہیں، اُس کی اپنی زندگی ہے۔
پرورش کی جنگ جیتنے کا راز یہ نہیں کہ آپ اپنے ساتھی کو قائل کر لیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ دونوں مل کر ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں بچہ خود کو محفوظ سمجھے۔ جیسے پاکستان کی وہ روٹی، جس میں میدہ بھی ہوتا ہے اور آٹا بھی، مگر صلہ ہمیشہ پیار کا ہوتا ہے۔