
آپ نے اکثر سنا ہوگا: وہ دیکھو، یہ تو پلے بوائے بنی پھرتی ہے، اس کے رویے تو بالکل لڑکوں جیسے ہیی، یہ تو کھیل ہی کھیل میں سب کو اپنا فین بنا لیتی ہے۔ لیکن کبھی سوچا ہے کہ جب کسی لڑکی کو یہ لیبل لگایا جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟
کیا وہ واقعی کھیل رہی ہوتی ہے، یا معاشرے کے بنائے ہوئے اصولوں سے بچنے کی کوشش؟ جب آپ کسی کو پلے بوائے کہتے ہیں، تو کیا آپ اس کے جذبات کا کھیل بن رہے ہوتے ہیں؟
کیا ہم سب اس لیبل کے پیچھے چھپی ہوئی لڑکی کی ٹوٹتی ہوئی آواز کو سننے سے انکاری ہیں؟
یہ صرف ایک لفظ نہیں، ایک زہر ہے
پلے بوائے کا لیبل لڑکیوں کو ان کی شخصیت کا کھیل سمجھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ لفظ ایک چھری کی طرح کاٹتا ہے جو ان کی خوداعتمادی، عزتِ نفس، اور معاشرے میں ان کی جگہ کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو پردے میں رہو بھی کہا جاتا ہے اور تم تو لڑکوں جیسی ہو بھی، یہ تضاد انہیں کس کھڈ میں دھکیل رہا ہے؟
تمہاری ہنسی بھی تمہاری سزا بن جاتی ہے
سوچیں وہ لڑکی جو کالج میں دوستوں کے ساتھ ہنس دیتی ہے، کلاس میں مزاح کر لیتی ہے، یا کسی لڑکے سے بے تکلفی سے بات کر لیتی ہے۔ اگلے ہی لمحے اسے پلے بوائے کا ٹیگ ملتا ہے۔ کیا ہنسی، بات چیت، یا دوستی کسی لڑکی کے کردار کا پیمانہ ہونی چاہیے؟ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کے لیے شریف ہونے کی تعریف میں خاموشی اور جھجک شامل ہے، وہاں کھل کر جینے والی لڑکیوں کو یہ لیبل کیوں دیا جاتا ہے؟
لیبل لگانے والے ہاتھوں میں چھپا ہوا ماضی
اکثر یہ لیبل لگانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کبھی کسی کے کھیل کا شکار ہوئے ہوں، یا پھر معاشرے کے بنائے ہوئے دقیانوس اصولوں کے قیدی۔ مثال کے طور پر، وہ چچا جو بیٹی کو کہتے ہیں: تمہاری یہ بات کرنے کی عادت ٹھیک نہیں، لیکن اپنے بیٹے کی شیخی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک لڑکے کی شیخی کو اس کی شخصیت کا حصہ سمجھتے ہیں، اور لڑکی کی آزاد سوچ کو اس کا کھیل؟
ڈرائیور سیٹ پر بیٹھی لڑکی… کیا وہ بھی پلے بوائے ہے؟
حقیقی زندگی کی ایک مثال لیجیے: زینب نے گاڑی چلانی سیکھ لی، سوشل میڈیا پر اپنی ڈرائیونگ کی ویڈیوز شیئر کیں۔ کمنٹس میں لکھا گیا: واہ، پلے بوائے بن گئی ہو!۔ سوال یہ ہے: کیا لڑکی کا کوئی بھی غیرروایتی اقدام اسے کھلاڑی بنا دیتا ہے؟ کیا ہم لڑکیوں کی کامیابیوں کو ان کے کردار سے جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں؟
نہ وہ کھیل رہی ہوتی ہے، نہ آپ… یہ سب معاشرے کا ڈرامہ ہے
یہ لیبل دراصل معاشرے کا وہ آئینہ ہے جس میں لڑکیوں کو ہر وقت اپنا چہرہ دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ خود کو شریف ثابت کرے تو بورنگ، اگر کھل کر جیے تو پلے بوائے۔ نفسیاتی طور پر یہ دوہرا معیار لڑکیوں کو ایک ایسے جنگل میں دھکیل دیتا ہے جہاں وہ نہ تو خود ہو پاتی ہیں، نہ معاشرے کی بنائی ہوئی تصویر۔ نتیجہ؟ خود اعتمادی کا خسارہ، ڈپریشن، اور وہ مسکراہٹ جو اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔
کیا آپ تیار ہیں اس لیبل کو توڑنے کے لیے؟
اگلی بار جب کوئی لڑکی آپ کو بہت کھلی ہوئی لگے، تو خود سے پوچھیں: کیا میں واقعی اسے جانتا ہوں، یا صرف معاشرے کے دیے ہوئے چشمے لگا کر دیکھ رہا ہوں؟ یاد رکھیں: ہر لڑکی کے اندر ایک کہانی ہوتی ہے، اور ہر کہانی کا ایک درد۔ لیبل لگانا آسان ہے، لیکن اس درد کو سمجھنا… یہی تو اصل امتحان ہے۔