
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ صبح 5 بجے اُٹھ کر کتابوں کے انبار میں گھر جانا، دن بھر ٹیوشنز کے چکر، رات کو ڈیڈ لائنز کے نیچے سسکنا… یہ سب کس کے لیے؟ کیا یہی کامیابی ہے؟
کیا آپ کے بچے کا بچپن صرف “اے پلس” کے لیے قربان ہو رہا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب وہ کہتا ہے میں ٹھیک ہوں، تو اس کی آنکھوں میں چھپا ڈر آپ کو دکھائی نہیں دیتا؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ وہ کھیلنے کی عمر میں خود کو ناکام سمجھنے لگا ہے؟
اور سب سے بڑا سوال کیا ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو ڈگریوں کے انبار تو لے گی، مگر جذبوں سے خالی ہوگی؟
دباؤ کی کہانی
یہ کہانی صرف ایک طالب علم کی نہیں، ہر اس گھر کی ہے جہاں ماں باپ کا خواب بچے کے کندھوں پر بوجھ بن جاتا ہے۔ جہاں ٹاپ کرنا زندگی کا مقصد ہے، اور میڈیکل یا انجینئرنگ کے علاوہ تمام خواب فضول ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جہاں ذہنی صحت کا لفظ سنتے ہی لوگ کہتے ہیں: یہ سب ویسٹرن ایجنڈا ہے، ہمارے بچے تو مضبوط ہیں! مگر حقیقت؟ ہر 10 میں سے 7 نوجوان ڈپریشن کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
رٹّا سسٹم کا جن:
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں 85 فیصد طلبہ صرف رٹے لگا کر پاس ہوتے ہیں؟ تصور کریں کہ ایک بچہ جو کیمسٹری کے فارمولے تو رٹ لیتا ہے، مگر زندگی کا سب سے اہم فارمولا خوش رہنے سے ناواقف ہے۔
تمہاری تو cousin نے ایسے ٹاپ کیا تھا!
ہر جمعرات کو ڈنر پر بچے کا موازنہ اس کے کزنز سے کرنا، اسے ایسے ہی لگتا ہے جیسے وہ کسی ریس کا گھوڑا ہے جس کی کامیابی کا پیمانہ صرف ریٹنگ ہے۔
ڈاکٹر کے پاس؟ شرمندہ مت کرو!
اگر کوئی بچہ کہے کہ وہ تھراپسٹ سے بات کرنا چاہتا ہے، تو گھر والے کہتے ہیں: لوگ کیا کہیں گے؟ یہ تو صرف پاگل ہوتے ہیں وہاں جاتے ہیں۔ ایسا کرنا بچے کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے یہ شاید آج کل کے والدین کو نہیں معلوم۔
وہ لمحہ جب بچہ کہتا ہے: میں نے کوشش کی…
حیران کن حقائق: کیا آپ جانتے ہیں؟
ایک اوسط طالب علم دن کا 12 گھنٹہ کتابوں اور ٹیوشنز میں گزارتا ہے، جبکہ وہ صرف 20 منٹ اپنے دل کی بات سوچتا ہے۔
90 فیصد والدین کا خیال ہے کہ بچے کے پاس موبائل ہوگا تو پڑھائی خراب ہوگی، مگر وہ یہ نہیں پوچھتے کہ کیا تم خوش ہو؟
ہم کیا کچھ بدل سکتے ہیں؟
ناکامی کو گالی نہ سمجھیں:
زندگی کا امتحان صرف کاغذ پر نہیں ہوتا۔ وہ بچہ جو 70 فیصد لے کر بھی اپنے خوابوں کی طرف چل پڑتا ہے، وہ کامیاب ہے۔
تمہاری مرضی کو جگہ دو:
اگر آپ کا بیٹا شاعر بننا چاہتا ہے، یا بیٹی فوٹوگرافر، تو اس کے جذبوں کو کچلنے کے بجائے اس کا ہاتھ تھامیں۔
ذہنی صحت کو نرمی سے لینا سیکھیں:
جیسے ہم بخار ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، ویسے ہی دل کی بیماری کو بھی سنجیدگی سے لیں۔
تصور کریں ایک پاکستان جہاں بچے سکول سے واپس آتے ہیں تو ماں پوچھتی ہے: “بیٹا، آج کتنا ہنسے؟” نہ کہ ٹیسٹ میں کتنے نمبر آئے؟۔۔۔ شاید یہی ہماری اصل کامیابی ہوگی۔