
کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کسی رشتے کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر دل میں اُس کے لیے اٹھتی ہر لہر آپ کو مجبور کر دیتی ہے کہ “نہیں، یہ تو میری جان ہے”؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ کسی کی خوشی آپ کی ذمہ داری بن گئی ہے، اور اُس کا دکھ آپ کے سینے پر پتھر کی طرح دب گیا ہے؟
سوچیں، وہ کون سی ڈور ہے جو آپ کو اُن لوگوں سے باندھے ہوئے ہے جن کے ساتھ آپ کا دل تو نہیں لگتا، مگر آپ کا ضمیر کہتا ہے، “یہ تو رشتہ ہے، توڑا نہیں جاتا”؟
اور سب سے اہم، کیا آپ جانتے ہیں کہ جذباتی وابستگی کب آپ کی طاقت بنتی ہے اور کب آپ کی سانسوں پر قابض ہو جاتی ہے؟
جذباتی وابستگی کی نفسیات
یہ وہ نفسیاتی گِرہ ہے جو انسان کو اپنے پیاروں، خیالوں، یہاں تک کہ عادتوں سے اِس طرح جوڑ دیتی ہے کہ اُس کی اپنی شناخت دھندلا جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تو یہ ایک خاموش وبا ہے،جہاں رشتوں کی پاسداری کو فرض سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ رشتہ آپ کے دل کو زخم ہی کیوں نہ دے رہا ہو۔
راز یہ ہے کہ:
جذباتی وابستگی دراصل آپ کی اپنی کہانی کو دوسروں کے الفاظ میں لکھنے کی کوشش ہے۔
مثالوں سے سمجھیں
– آپ کی والدہ آپ سے کہتی ہیں، “تمہاری شادی کے بغیر میرا دل نہیں لگتا۔” آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پیار ہے، مگر نفسیات کہتی ہے کہ یہ ایک گیلٹ (Guilt) کا تیر ہے جو آپ کو اپنی خوشی کو نظرانداز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
– آپ کا دوست ہر مشکل میں آپ سے شکوہ کرتا ہے، اور آپ اُس کے بغیر سو نہیں پاتے۔ سچ یہ ہے کہ آپ اُس کی جذباتی لت کو پالنے لگے ہیں، اور یہ لت آپ دونوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
حیرت انگیز سچ:
ہمارے معاشرے میں پیار کا اظہار اکثر کنٹرول کا بہانہ بن جاتا ہے۔
جیسے کوئی بیٹی اپنے خواب پورے کرنا چاہتی ہو، مگر ماں باپ کہتے ہیں، “ہم نے تمہیں پیار کیا ہے، تمہیں ہمارا خیال رکھنا چاہیے۔” یہاں پیار کی چادر میں “جذباتی بلیک میلنگ” چھپی ہوتی ہے۔
کبھی غور کیا؟ ہم اُن لوگوں سے سب سے زیادہ وابستہ ہوتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔
جیسے وہ شوہر جو بیوی کو نظرانداز کرتا ہے مگر بیوی اُس کے لیے دن رات اُلجھی رہتی ہے کیونکہ اُس نے اپنی ساری پہچان اُس رشتے میں گھونپ دی ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیسے بچیں؟
خود کو پہچانیں: آپ کی ذات دوسروں کے ارد گرد گھومنے والا سیارہ نہیں، ایک مکمل کہکشاں ہے۔
حدود بنائیں: پیار کا مطلب ہر خواہش کو “ہاں” کہنا نہیں، بلکہ اپنی آواز کو “نہ” کہنے کی آزادی دینا ہے۔
سوچیں: کیا یہ رشتہ آپ کو بڑھا رہا ہے یا گھٹا رہا ہے؟ جذباتی وابستگی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ آپ خود کو “خالی” محسوس کرنے لگیں۔
پاکستانی معاشرہ آپ کو سکھاتا ہے کہ “دوسروں کے لیے جیو”، مگر نفسیات کہتی ہے کہ “جو اپنے آپ کو زندہ نہیں رکھ سکتا، وہ دوسروں کو کیا دے گا؟” تو پھر آج ہی اُس جذباتی فریڈم کی طرف قدم بڑھائیں جہاں آپ کے رشتے آپ کا بوجھ نہیں، آپ کا سہارا بنیں کیونکہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِسے دوسروں کے ڈراموں میں گزارنے میں خرچ نہ کریں۔