
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ موبائل پر ایک معمولی سا میسج چھپانے کے لیے کمرے کا دروازہ بند کرتی ہیں، تو آپ دراصل کس چیز سے ڈر رہی ہوتی ہیں؟ کیا یہ والدین کی ڈانٹ ہے، یا معاشرے کی وہ نظریں جو آپ کے پیچھے ایک کہانی گھڑنے کو تیار بیٹھی ہیں؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا ہاں کہنا بھی آپ کی مرضی کے بجائے کسی اور کے ڈر کی وجہ سے نہ بن جاتا ہے؟
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ جس رات آپ نے چوری چھپے دوست سے فون پر بات کی تھی، اُس رات آپ کی ماں نے بھی نیند کی گولیاں کھائی تھیں؟
یہ کہانی صرف ایک لڑکی کی نہیں، ہر اُس وجود کی ہے جو خاندان کے ناموس اور معاشرے کے اصولوں کے بیچ پِستا رہتا ہے۔ یہاں رشتے چھپانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، بلکہ چھپنے کی عادت خود ہمارے اندر پیدائشی طور پر وڈیر ہو جاتی ہے۔
معاشرہ: ہمارے جذبات کا سیکیورٹی گارڈ
پاکستانی معاشرے میں لڑکی کا ہر وہ قدم جو بے نقاب ہو، اُسے بے عزتی کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ مثال؟ اگر آپ کسی لڑکے سے بازار میں کھڑے ہو کر بات کر رہی ہیں، تو اگلے ہی دن محلے کی چائے کی محفل میں آپ کی شادی تک کی تاریخ طے ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عزت واقعی ہمارے رشتوں سے مشروط ہے، یا پھر ہمارے اندر کی ایمانداری سے؟
خاندان کا خوف: ہم تمہیں ڈھونڈ لیں گے
والدین کا ڈر بھی عجیب ہے۔ وہ آپ کو ہر لمحے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، مگر اُن کا یہ ڈر آپ کو ایک ایسے جال میں ڈال دیتا ہے جہاں آپ سانس لینے کے لیے بھی جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنی ماں کی آنکھوں میں وہ خوف دیکھا ہے جب آپ نے کہا تھا امی، میں صرف سہیلی کے گھر جا رہی ہوں؟ وہ جانتے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہی ہیں، اور آپ جانتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں۔
چپ رہو، ورنہ لوگ کیا کہیں گے؟
یہ جملہ ہر پاکستانی لڑکی کی زندگی کا سب سے بڑا بلیک میل ہے۔ ہمارے ہاں شادی سے پہلے محبت کو جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن شادی کے بعد اُسی محبت کو قربانی کا ٹائٹل دے دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے نا؟ جیسے کہیں کوئی لڑکی اپنے گھر کی دیوار پر لکھ دے: یہاں محبت کرنا منع ہے، مگر شادی کے بعد اِسے فرض سمجھو۔
ڈیلیٹ ہسٹری کی نفسیات
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ اپنے فون کی ڈیلیٹ ہسٹری صاف کرتی ہیں، تو دراصل آپ اپنے اندر کے کون سے حصے کو مٹانا چاہ رہی ہوتی ہیں؟ ہمارے معاشرے نے لڑکیوں کو اتنا سپریمسی بنا دیا ہے کہ وہ اپنے جذبات تک کو سکیورٹی کوڈ لگا کر رکھتی ہیں۔ مثال؟ وہ لڑکی جو شادی سے ایک رات پہلے اپنے پرانے خطوں کو چولہے میں جلا دیتی ہے—کیا وہ واقعی ماضی کو جلا رہی ہوتی ہے، یا خود کو؟
خوف کو محبت سے بدلیں
ہو سکتا ہے آپ کی بہن، بیٹی، یا دوست آج بھی اپنے دل کی بات چھپا رہی ہو۔ اُس سے پوچھیں: تم ٹھیک تو ہو؟ —یہ سوال اُس کے لیے کسی ریلیف کی طرح ہوگا۔ یاد رکھیں، معاشرے کی عزت اُس وقت تک نامکمل ہے جب تک ہم لڑکیوں کے دل کی آواز کو بے عزتی کا نام دیں گے۔ شاید تبدیلی کی شروعات اِس سادے سے جملے سے ہو: ڈرو مت، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کے گھر کی چاردیواری کے باہر بھی کوئی ایسی لڑکی موجود ہے جو آپ ہی کی طرح خوفزدہ ہے؟ ہو سکتا ہے وہ آپ ہی کی عکس ہو۔