
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ…
– جب آپ کسی کی خوشی کے لیے راتوں کو جاگتے ہیں، تو کیا آپ اپنی نیند کو “قربانی” کا سرٹیفکیٹ دے کر خود کو تسلی دیتے ہیں؟
– جب فیملی کے فیصلوں میں آپ کی رائے کو “چپ کروا دیا” جاتا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ “احترام” ہے یا آپ کی آواز کا قتل؟
– کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا کہ آپ کا موبائل فون 20% پر ہوتے ہی آپ چارج کرنے دوڑتے ہیں، مگر جب آپ کا دل 20% پر ہو، تو آپ خود کو “چارج” کرنے کی بجائے دوسروں کو پاور بینک سمجھتے رہتے ہیں؟
– کیا آپ وہ شخص ہیں جو دوسروں کے لیے کرسی کھینچتے ہیں مگر خود کبھی بیٹھنے کی جرات نہیں کرتے؟
اگر ان سوالوں نے آپ کے اندر کی کسی زخم پر ہاتھ رکھ دیا ہے، تو یہ تحریر آپ ہی کے لیے ہے۔
ہم سب کہانی کے “ہیرو” ہیں مگر اپنی ہی کہانی کے “ولن”
پاکستانی معاشرے میں ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ “دوسروں کو خوش رکھو” مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کو “پرانے کپڑوں” کی طرح سمجھنے لگتے ہیں جو دوسروں کے لیے پہنے جاسکتے ہیں، پھٹے ہوئے بھی چل جائیں گے۔ نتیجہ کیا ہوگا؟ ہماری خوداعتمادی، خواب، اور خواہشات… سب قربان ہو جائیں گے
خود کو اہمیت دینے کا فارمولا “چائے کے ساتھ بسکٹ” جیسا آسان ہے
سنئیے! خود کو اہمیت دینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ نرگسیت میں جیئیں۔ یہ تو بس ایسا ہے جیسے آپ اپنے گھر کے لیے ایک چھوٹا سا جنریٹر لگا لیں تاکہ بجلی جانے پر آپ کا پنکھا چلتا رہے۔
“نہیں” کہنا سیکھیں—یہ کوئی گالی نہیں!
– مثال کے طور پر جب چاچو صاحب آپ کو شادی کے لیے بے تحاشہ سجاوٹ کا کام سونپ دیں، تو کہیں کہ “چاچو! میرا وقت بھی آپ کی طرح قیمتی ہے۔ آدھا کام تو میں کر دوں گا، باقی آپ خود کریں۔”
– کیوں؟ کیونکہ آپ کا وقت “غیر معینہ مدت” کا قیدی نہیں۔
اپنی خوشی کو “چوری” کروانے دیں
– مثال کے طور پر ہفتے میں ایک دن چائے کی دعوت پر جاتے ہوئے کہیں کہ “آج میں نہیں آؤں گا۔ میرا پسندیدہ ڈرامہ آ رہا ہے، اور میں اسے اپنے ساتھ بیٹھ کر کھانے کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔”
– کیوں؟ کیونکہ جب آپ اپنی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں، تو دوسرے بھی آپ کی عزت کرنا سیکھتے ہیں۔
خود سے بات کریں—بغیر فون کے!
صبح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ “آج تُو کیسا محسوس کر رہا ہے؟ تُو کیا چاہتا ہے؟”
ہم سب لوگ تو روزانہ لاکھوں باتیں کرتے ہیں، مگر اپنے آپ سے بات کرنا بھول جاتے ہیں۔
اپنی ذات کو “پاکستان کا آئین” سمجھیں
جیسے آئین کی خلاف ورزی پر احتجاج ہوتا ہے، ویسے ہی آپ کے ساتھ کوئی ناانصافی کرے تو خود کو “ریلی” نکالنا سیکھائیں۔ یاد رکھیں کہ جو درخت خود کو پانی نہیں دیتا، وہ دوسروں کو سایہ کیسے دے گا؟ خود کو اہمیت دینا کوئی خودغرضی نہیں… یہ تو خود کو زندہ رکھنے کا سرٹیفکیٹ ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ آج ہی سے اپنے دل کی بیٹری کو “فُل چارج” کرنے کا ٹائم ٹیبل بنا لیجیے کیونکہ آپ کی ذات بھی اُس چائے کی پیالی کی مانند ہے جسے اگر گرم نہ رکھا جائے، تو وہ ٹھنڈی ہو کر کسی کو بھی فرحت نہیں دے سکتی۔