
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ رشتوں میں ہاں کہتے کہتے آپ کی اپنی آواز دب گئی ہے؟ جیسے وہ خالہ جو ہر جمعرات کو آپ کے گھر آتی ہیں اور آپ کے کیرئر کے فیصلوں پر تبصرہ کرتی ہیں، مگر آپ انہیں یہ بتانے کی ہمت نہیں کر پاتے کہ خالہ جان، میری زندگی کا فیصلہ میں خود کروں گا؟ یا وہ دوست جو آپ کی پرائیویٹ میسجز کو ہنسی مذاق سمجھ کر دوسروں کے ساتھ شیئر کر دیتا ہے، اور آپ اسے بات چیت کہہ کر نظرانداز کر دیتے ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سب وہ لمحے ہیں جب آپ اپنی رضامندی کی حدود کو دھندلا کر رہے ہوتے ہیں؟
ہم سب نے سنا ہے کہ محبت میں کوئی شرط نہیں ہوتی، مگر یہ جملہ اکثر ہمیں اپنی شرائط بھولوا دیتا ہے۔ رشتوں میں رضامندی کی حدود کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سرد مہر ہو جائیں، بلکہ یہ کہ آپ اپنی عزتِ نفس اور دوسروں کے احترام کے درمیان ایک سنہری لکیر کھینچیں۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں رشتوں کی گرمی کو فوقیت دی جاتی ہے، یہ لکیر کھینچنا اکثر مشکل ہوتا ہے، مگر ناگزیر بھی۔
نہ کہنا گناہ کیوں سمجھا جاتا ہے؟
ہماری ثقافت میں نہ کا لفظ اکثر بے ادبی کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً:
والدین آپ سے کہتے ہیں: بیٹا، فلاں رشتہ ہمیں پسند ہے، اور آپ کی خاموشی کو رضامندی سمجھ لیا جاتا ہے۔
دفتر میں باس آپ سے کام کا اضافی بوجھ ڈالتا ہے، اور آپ جی سر کہہ کر گھر والوں کے ساتھ ڈنر منسوخ کر دیتے ہیں۔
کیا یہ سب کچھ رضامندی ہے؟ نہیں۔ یہ خوف ہے کہ “لوگ کیا کہیں گے؟
حدود نہ ہونے کا اثر
حدود کی کمی اکثر تعلقات کو انڈے چور مرغے کی کہانی بنا دیتی ہے۔ جیسے وہ بہن جو ہر سال عید پر بھائی سے مہنگے تحفے کی توقع رکھتی ہے، مگر جب بھائی مالی طور پر پریشان ہو تو وہی بہن اسے کنجوس کہتی ہے۔ اگر دونوں نے پہلے ہی اپنی استطاعت کی حدود واضح کر دی ہوتیں، تو یہ تلخی پیدا ہی نہ ہوتی۔
ہاں کی حقیقی قیمت
جب آپ ہر چیز پر ہاں کہتے ہیں تو آپ کی رضامندی کی قدر گھٹ جاتی ہے۔ مثال لیجیے،
آپ کی دوست ہر ہفتے آپ سے فون پر اپنے مسائل سنتی ہے، مگر جب آپ کسی پریشانی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ابھی کال پر ہوں کہہ کر لٹکا دیتی ہے۔
کیا یہ تعلق دوستی ہے یا استعمال؟ جب آپ اپنی ضروریات کو بیان نہیں کرتے، تو دوسرے آپ کی خاموشی کو اجازت سمجھ لیتے ہیں۔
کیسے شروع کریں؟
چھوٹی چھوٹی حدود بنائیں: جیسے کسی رشتے دار کو کہنا: چاچا جان، آپ کی نصیحت قیمتی ہے، مگر میں اپنے فیصلے خود کرنا چاہتا ہوں۔
جذبات کو ڈکشنری دیں: اگر کوئی آپ کی بات سننے سے انکار کرے تو کہیں: مجھے لگتا ہے ہم ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پا رہے، کیا ہم تھوڑا وقفہ لیں؟
نہ کو گِلٹ سے نہ جوڑیں: یاد رکھیں، حدود طے کرنا خودغرضی نہیں، بلکہ خود کو اور رشتے کو بچانے کا طریقہ ہے۔
رضامندی کی حدود کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دروازے بند کر دیں، بلکہ یہ کہ آپ کھڑکیاں کھولیں تاکہ تعلقات میں تازہ ہوا آ سکے۔ جب آپ اپنی لکیر واضح کریں گے تو لوگ آپ کو ڈھنگ سے پیار کرنا سیکھیں گے۔ اور ہاں، اگلی بار جب کوئی آپ سے پوچھے: تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟ تو مسکراتے ہوئے جواب دیں: اتنی کہ دل کی بات کہہ سکوں!