
کبھی سوچا ہے کہ…
– جب آپ کے کزن نے “انجینئر” بن کر گھر میں ہیڈ لگا لی، تو کیا آپ کی نیندیں اُڑ گئیں؟
– جب خالہ جان نے آپ کے لیے “بیٹے، شادی کا کوئی پلان بتاؤ” والی لائن مار دی، تو کیا آپ کا دل چھلانگیں لگانے لگا؟
– جب سوشل میڈیا پر ہر کوئی پرفیکٹ لائف شیئر کرتا نظر آیا، تو کیا آپ نے اپنی ذات پر سوال کرنا شروع کر دیے؟
– اور جب محلے والی خاتون نے آپ کے کپڑوں پر “یہ نوجوانوں کا نیا فیشن ہے؟” والا تبصرہ کیا، تو کیا آپ نے خود کو چھپانے کی کوشش کی؟
اگر آپ کا جواب “ہاں” ہے، تو آپ اُس کھیل کا حصہ ہیں جہاں سوسائٹی کے اصول آپ کی ذات پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خوشخبری یہ ہے کہ یہ کھیل آپ کو ہارنے پر مجبور نہیں کر سکتا
ہم سب ایک ہی کشتی میں ہیں
پاکستانی معاشرہ ایک رنگین شیشہ ہے جہاں ہر فرد دوسرے کو چمکتا دیکھتا ہے، مگر اِس کی چکاچوند کے پیچھے ٹوٹے ہوئے خواب، ادھورے ارمان، اور “لوگ کیا کہیں گے” کا خوف چھپا ہوتا ہے۔ ہماری زندگیاں اکثر اُس ڈرامے کی طرح ہیں جہاں ہم “سٹار” نہیں، بلکہ “سکرپٹ رائٹرز” سوسائٹی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔
راز کی بات: دباؤ کو “پگھلانے” کا فارمولا
سُنئیے! سوسائٹی کا دباؤ ایک آئس کریم کی طرح ہے، اگر اِسے سیدھے ہاتھ میں پکڑا جائے تو پگھل کر ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ مگر اگر آپ اِسے “ڈبے” میں بند کر کے اپنی مرضی کی ٹھنڈک دے لیں، تو یہ آپ کی بنائی ہوئی میٹھاس بن جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کے “ڈبے” کے مالک ہیں۔
حقیقی زندگی کے اسباق: کہانیاں جو آپ کو چُھو جائیں گی
“انجینئر بنو ورنہ…” کا ڈراما
علی کو بیالوجی سے پیار تھا، مگر اُس کے ابو کا فرمان تھا کہ”ڈاکٹر یا انجینئر—یہی عزت ہے۔” آج علی ایک کامیاب سافٹ ویئر انجینئر ہے، مگر ہفتے میں ایک بار وہ لاہور کے باغات میں پودوں پر ریسرچ کرتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اُس نے “نہ” کہنا سیکھا، اور اپنی خوشی کے لیے ایک کونہ بنا لیا۔
“شادی کا ٹائم ٹیبل”
ثانیہ کو 28 سال کی عمر میں گھر والوں نے کہا کہ “اب تو بوڑھی ہو گئی ہو!” مگر اُس نے ایک کارڈ لکھا کہ “میری عمر کا کیلنڈر میرے پاس ہے۔ جب چاہوں گی، تاریخ منتخب کر لوں گی۔” آج وہ ایک سول سروس آفیسر ہے اور اپنی مرضی سے جی رہی ہے۔
“سوشل میڈیا کا جھوٹا رُوپ”
زینب ہر روز انسٹاگرام پر “پرفیکٹ لائف” والی تصاویر دیکھ کر روتے ہوئے سوتی تھی۔ پھر اُس نے ایک پوسٹ کی کہ”میرا کمرہ ادھورا ہے، میرا دل بھرا ہے۔” حیرت کی بات یہ تھی کہ اُسے 500 لوگوں نے فالو کیا جنہوں نے کہا: “ہم بھی ایسے ہی ہیں۔”
دیکھیں جی سوسائٹی آپ کو پہننا سکھاتی ہے، مگر یہ نہیں بتاتی کہ جوتے تنگ ہیں تو اُتار بھی سکتے ہو۔ لوگ آپ کے فیصلوں پر تبصرے کریں گے، مگر اُن کے الفاظ کا وزن اُتنا ہی ہے جتنا آپ اُنہیں دیں۔
اپنی آواز کو گونجنے دیں
سوسائٹی کا دباؤ ایک بھیڑیے کی طرح ہے جو صرف اُسے ڈراتا ہے جو بھاگتا ہے۔ اگر آپ مُڑ کر اُس کی آنکھوں میں دیکھیں اور کہیں میں اپنی کہانی کا ہیرو ہوں، ولن نہیں، تو یہ دباؤ آپ کے قدموں کی دھول بن جائے گا۔ یاد رکھیں پاکستانی معاشرے کی خوبصورتی اِس کی رگوں میں دوڑنے والے جذبے میں ہے، آپ کی مرضی سے جیا ہوا ایک دن، اُن ہزاروں لوگوں کو حوصلہ دے سکتا ہے جو آپ کی طرح ڈر رہے ہیں۔