Skip to content Skip to footer

سپونسرڈ ڈیٹس: مالدار پارٹنر کے ساتھ مہنگی ڈیٹ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟



کبھی سوچا ہے کہ ہماری محبتوں پر بجٹ کیوں حاوی ہوتا جا رہا ہے؟
کیا آپ نے بھی کبھی اپنے پارٹنر کے بینک بیلنس کو اپنے دل کی دھڑکنوں سے جوڑ کر دیکھا؟
کیا آپ کے لیے بھی گاڑی، بنگلہ، برانڈڈ بیگ کسی رشتے کی پہلی شرط ہیں؟ اور اگر نہیں، تو پھر ہمارے اردگرد ایسے جوڑے کیوں بڑھ رہے ہیں جو ایک دوسرے کو پیسے کے لیے چُھپ چُھپ کر پسند کرتے ہیں؟
کیا ہم واقعی اِس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں جہاں رشتے کی کامیابی کا پیمانہ لاکھوں کی شادی اور ڈیٹنگ پر ہونے والا خرچ ہے؟ 

پاکستانی معاشرے میں آج کل سپونسرڈ ڈیٹس کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے، جہاں نوجوان مالدار پارٹنرز کی تلاش میں اپنی حقیقی خواہشوں کو دبا رہے ہیں۔ یہ تحریر اُن سوالوں کو چھیڑتی ہے جو ہم سب کے دلوں میں کھٹک رہے ہیں، مگر بولتے ہم نہیں۔ 

تمہاری گاڑی کونسی ہے؟ پہلی ملاقات کا نیا سوال 

تصور کریں آپ کسی کیفے میں بیٹھے ہیں، سامنے کوئی نیا چہرہ، اور بات چیت کی بجائے اُس کی نظر آپ کے ہاتھ میں پڑی گھڑی یا پیچھے کھڑی گاڑی پر ہے۔ کیا یہی وہ لمحہ ہے جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ رشتہ نہیں، ڈیل ہے؟ مثال کے طور پر، لاہور کے ایک ریستوران میں ایک لڑکا اپنی ڈیٹ کو متاثر کرنے کے لیے دوست سے کار اُدھار لیتا ہے، مگر شام کے آخر میں جب سچ سامنے آتا ہے، تو لڑکی کا جواب ہوتا ہے: جیٹھے لگدے اوے! تسیں تاں اوہو ہو جو مینوں پہلے ہی سمجھ آ گیا سی!

دل کی بجائے والدہ کی فرمائش 

ہماری ماؤں کی خواہشات بھی اب اسپانسرڈ ڈیٹس کو ہوا دے رہی ہیں۔ مثال: فیملی والے کہتے ہیں، بیٹا، ہمارے زمانے میں تو رشتہ دیکھا جاتا تھا، آج کل تو صرف ‘سیٹل’ ہونا چاہیے! یعنی لڑکے کا بیرون ملک ہونا، لڑکی کا ڈاؤری میں گھر بھرنا… اور اگر یہ نہ ہو، تو تمہاری پسند کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کیا ہماری نسل کو اپنی خوشی خریدنے کے لیے فیملی کی مرضی کا کرایہ دینا پڑ رہا ہے؟ 

انسان نہیں، پرسنلٹی ڈسکاؤنٹ کارڈ چاہیے! 

سوشل میڈیا پر دیکھیں: ایک لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کی طرف سے ملے گفٹ ہیمپر کی تصویر شیئر کرتی ہے جس پر Nishat ہوٹل کا ڈنر، Khaadi کا سوٹ، اور ایک چمکتا ہوا بکس ہوتا ہے۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ وہی لڑکی رات کو اپنی بہن سے کہتی ہے: یار، اِس نے تو آج تک میرا پسندیدہ رنگ تک نہیں پوچھا۔ یہ ہے وہ المیہ جہاں مہنگی ڈیٹنگ کے پیچھے چھپی خالی روحیں ہم سب کو اپنا شکار بنا رہی ہیں۔ 

کیا پیسہ خوشی کا ریچارج کارڈ ہے؟ 

ایک دوست کی کہانی سنیں: علی نے امیر لڑکی سے شادی کی، مہنگی گاڑیاں، بڑا گھر… مگر ایک سال بعد اُس کا کہنا تھا: یار، گھر میں ہر چیز لوئے کی ہے، مگر بات کرنے والا کوئی نہیں۔ کیا ہم نے اپنے رشتوں کو بھی قسطوں پر لے لیا ہے؟ جہاں ہر مہینے خرچ تو ادا ہوتا ہے، مگر دل کا قرض بڑھتا جاتا ہے۔ 

سپونسرڈ ڈیٹس کا مستقبل: کریڈٹ کارڈ کی طرح؟ 

سوچیں: اگر آج کا نوجوان پیسے کے بل پر رشتے بنائے گا، تو کل جب یہ کریڈٹ لیٹ ختم ہوگا، تو کیا بچے گا؟ مثال کے طور پر، اسلام آباد کی ایک لڑکی نے امیر گھرانے میں شادی کی، مگر جب شوہر کا کاروبار ڈوبا، تو رشتے کی بنیاد بھی ڈگمگا گئی۔ کیا ہماری نسل لوڈ شیڈنگ محبت کے دور میں جی رہی ہے؟ 
 
اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ ساری مثالیں آپ کے اردگرد بھی گھوم رہی ہیں، تو شاید یہ وقت ہے اپنے دل سے پوچھنے کا: کیا میں بھی اپنی محبت کو سپونسرڈ کر رہا ہوں؟ یاد رکھیں، پیسہ کبھی آپ کی ہنسی نہیں خرید سکتا، نہ ہی وہ آپ کو سچی تسلی دے سکتا ہے۔ اور ہاں، اصلی محبت وہ ہے جو آپ کو خود ہونے کی آزادی دے، چاہے اُس کے ساتھ کھانے کو صرف چائے اور سموسے ہی کیوں نہ ہوں۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.