
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کمرے میں تنہا بیٹھے ہوں اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے ذہن کی آواز سن رہے ہوں تو یہ تنہائی ہے یا خودشناسی؟
کیا وہ لمحے جب آپ فون سوئچ آف کرکے اپنے ساتھ بیٹھتے ہیں، یہ بے زاری ہے یا اپنے آپ کو ڈیٹنگ؟
کیا اکیلے پن کی خاموشی میں آپ کو اپنے خوابوں کی آوازیں زیادہ واضح سنائی دیتی ہیں، یا پھر یہ خاموشی آپ کو گھٹن کا احساس دلاتی ہے؟
کیا ہمارے معاشرے میں اکیلے رہنا طاقت کی علامت ہے یا پھر سماجی ناکامی؟
اگر آپ پاکستانی گھرانے میں پلے بڑھے ہیں، تو یہ جملے آپ کے کانوں میں کچھ یوں گونجتے ہوں گے:
بیٹا، تنہائی میں کیوں بیٹھے ہو؟ لوگوں سے ملو، رشتے نبھاؤ!
اکیلے پن کا یہ ڈرامہ کب تک؟ شادی کرو، گھر بساؤ!
لیکن کیا واقعی ہماری خوشی کا راز دوسروں کے ساتھ جُڑے رہنے میں ہی ہے؟ یا پھر کبھی کبھار اپنے آپ کو ڈسکنیکٹ کرنا بھی وہ جادو ہے جو ہمیں خود سے جوڑتا ہے؟
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اکیلے پن کو اکثر کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خود کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کے لیے کچھ لمحات کی تنہائی ضروری نہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دوسروں سے محبت کرنا سیکھیں بغیر اپنے آپ سے محبت کے؟
میں ہوں نا!: خودشناسی کا سفر
کچھ دن پہلے لاہور کے ایک کیفے میں ایک لڑکا اکیلا بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ کیا وہ اکیلا تھا یا آزاد؟ ہماری ثقافت میں اکیلا کھانا، اکیلا سینما جانا، یہاں تک کہ اکیلا سیر کو نکلنا بھی عجیب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ اپنے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو آپ دراصل اپنے اندر کے اسٹوری ٹیلر کو سُن رہے ہوتے ہیں؟ وہ کہانیاں جو شور میں دب جاتی ہیں۔
جب آپ کسی پارٹی میں سب سے الگ کونے میں بیٹھے ہوں اور اچانک محسوس کریں کہ آپ کو اپنی ہی موجودگی سے لطف آرہا ہے… یہی سیلف-ریلیشن شپ کا پہلا قدم ہے۔
لوگ کیا کہیں گے؟: معاشرے کا دباؤ
کراچی کی ایک لڑکی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالی: میں نے اپنے لیے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہے۔ سب سے دور۔ بس اپنے آپ کے ساتھ۔ کمنٹس میں لکھا تھا: کیا کوئی مسئلہ ہے؟ تمہاری شادی ٹھیک ہے نا؟ ہمارا معاشرہ اکیلی عورت کو مسئلہ سمجھتا ہے، اور اکیلے مرد کو ناکام۔ لیکن کیا یہ دباؤ ہمیں خود سے دور نہیں کرتا؟
ہم دوسروں کو خوش رکھنے کے چکر میں اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ پھر ایک دن آئینے میں دیکھتے ہیں تو اجنبی سا چہرہ گھور رہا ہوتا ہے۔
بے لوث محبت: اپنے آپ سے رشتہ
اسلام آباد کے ایک کوچ نے مجھ سے کہا: جو اپنے آپ سے ایمانداری سے پیش نہیں آتا، وہ دوسروں سے کیسے توقعات رکھ سکتا ہے؟ سیلف-ریلیشن شپ کا مطلب ہے: اپنی کمزوریوں کو گلے لگانا، اپنی خامیوں پر ہنسنا، اور اپنے ساتھ وہ سلوک کرنا جو آپ کسی پیارے دوست کے ساتھ کریں گے۔
مثال:
جب آپ رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ سے پوچھیں: تم ٹھیک تو ہو؟ اور جواب میں مسکرا کر کہیں: ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب آپ کی سیلف-ریلیشن شپ کامیاب ہوتی ہے۔
تنہائی یا خودشناسی؟: توازن کی ضرورت
ضرورت سے زیادہ تنہائی زہر ہے، لیکن خود کو جاننے کے لیے تھوڑا سا اکیلے پن اکسیر۔ کبھی کبھار اپنے آپ کو “ڈیٹ” پر لے جائیں: اکیلا کافی پیئیں، اکیلا فلم دیکھیں، اپنے دماغ کی باتیں سنیں۔ پھر دیکھیں کہ کیسے آپ کے تعلقات بھی گہرے ہوتے ہیں، کیونکہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کی بجائے اپنی خوشی کو سمجھنے لگتے ہیں۔
جو اپنے آپ سے محبت کرتا ہے، وہ دوسروں کو محبت دے سکتا ہے۔ اور جو اپنے آپ کو جانتا ہے، وہ کبھی تنہا محسوس نہیں کرتا۔
سیلف-ریلیشن شپ کوئی ٹرینڈ نہیں، یہ اپنے وجود کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں ہم کی ثقافت ہے، وہاں میں کو بھی جگہ دو۔ کیونکہ جب آپ اپنے ساتھ اچھے ہوں گے، تو دنیا آپ کے لیے ویسے ہی بن جائے گی۔