
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کسی تقریب میں نئے کپڑے پہن کر بھی بے چین ہوتے ہیں تو وجہ کیا ہوتی ہے؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ کام کی مصروفیت میں آپ اپنے جذبات کو کُچل دیتے ہیں؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ خود کو وقف کر دینا ہی محبت کی سب سے بڑی شکل ہے، چاہے اس میں آپ کا اپنا وجود ہی کیوں نہ تحلیل ہو جائے؟
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ خود کو نظرانداز کرتے ہیں تو درحقیقت آپ کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟
ہم سب نے اپنی ذات کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسروں کو خوش رکھنے کی دوڑ میں اپنے وجود کا وزن بھول گئے ہیں۔ سیلف لو کوئی لگژری نہیں، بلکہ یہ ہماری ذہنی بقا کا سبق ہے۔
وہ آواز جو ہم نے دبائی…
پاکستانی معاشرے میں خودغرض کا لیبل لگنے کا ڈر ہمیں اپنی ضرورتوں کو دفن کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ماں جو بچوں کے لیے کھانا پکاتے پکاتے خود بھوکی سو جاتی ہے، یا وہ نوجوان جو فیملی کے خواب پورے کرنے کے چکر میں اپنی صلاحیتوں کو قربان کر دیتا ہے۔ کیا یہ سبق ہمیں کبھی سکھایا گیا کہ اپنے آپ کو مٹانا محبت نہیں، بلکہ اپنے وجود سے غداری ہے؟
وہ چہرہ جو ہم نے چھپایا…
ہم نے اپنے چہرے کو کوزے میں ڈھالنے کے لیے کتنی جیلوں میں سانس لیا؟ گورے رنگ کی کریموں سے لے کر سماجی مقام کے لیے جھوٹے دعوے تک۔ مگر کیا کبھی آئینے میں اُس شخص سے بات کی جو آپ کے اندر موجود ہے؟ یاد رکھیں، جب آپ خود سے محبت کرنا شروع کرتے ہیں تو دنیا آپ کے عیبوں کو بھی حسن میں بدل دیتی ہے۔
وہ لمحہ جب ہم نے چُنا…
سیلف لو کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خودغرض بن جائیں۔ بلکہ یہ سکھاتا ہے کہ جب آپ اپنے وجود کو پانی دیں گے تو دوسروں کے لیے چھاؤں بھی بن سکیں گے۔ مثال لیجیے: جیسے ہوائی جہاز میں ہنگامی حالات میں آکسیجن ماسک پہلے اپنے لیے لگایا جاتا ہے، ویسے ہی ذہنی سکون کے لیے پہلا قدم اپنی ذات کو سننا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ خود سے محبت کرتے ہیں وہ دوسروں سے الجھنے کی بجائے انہیں متاثر کرتے ہیں؟ اگلی بار جب آپ خود کو ناقص محسوس کریں تو یاد رکھیں: ہمارا معاشرہ اُسی درخت کو سب سے زیادہ پوچھتا ہے جو اپنی جڑوں کو مضبوط رکھتا ہے۔
سیلف لو کوئی انگریزی ٹرینڈ نہیں، بلکہ یہ وہ دعا ہے جو آپ کی آنکھوں میں چمک اور قدموں میں توانائی بھر دیتی ہے۔ اپنے آپ سے ایک سوال پوچھیں: گر میں اپنا سب سے قریبی دوست ہوتا، تو اپنے ساتھ کیسے پیش آتا؟ جواب ہی سبق ہے۔