
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ۔۔۔
وہ لڑکی جس کے پاس سب کچھ ہے،خوبصورتی، تعلیم، صلاحیتیں، وہ ایک ایسے لڑکے کے پیچھے کیوں بھاگتی ہے جو اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے؟
کیوں وہ اپنے دوستوں کو بتاتی ہے کہ وہ بدل جائے گا، حالانکہ وہ جانتی ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلے گا؟
کیا وجہ ہے کہ کچھ لڑکیاں اپنی ماں کے آنسوؤں، باپ کی خاموشی، اور دوستوں کی نصیحتوں کو نظرانداز کرکے اُس محبت کو تھام لیتی ہیں جو انہیں روز زہر پلاتی ہے؟
اور سب سے بڑا سوال، کیا محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو کھونا شروع کردیں؟
پاکستانی معاشرے میں کچھ لڑکیاں تباہ کن رشتوں کو اس لیے تھامے رکھتی ہیں کیونکہ وہ تنہائی کے خوف، سماجی دباؤ، یا یہ یقین کہ میں اُسے بدل سکتی ہوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ یہ محض جذباتی الجھن نہیں، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے جس کی جڑیں ہمارے رویوں، گھریلو تربیت، اور فلمی رومانس کی فرضی دنیاؤں میں پیوست ہیں۔
میں تنہا نہیں رہ سکتی۔۔۔
سنا ہے نا وہ فقرہ۔۔۔ بیٹی کی عمر ہوگئی ہے، اب کوئی بھی رشتہ قبول کرلو۔ یہ جملہ کتنی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کرچکا ہوگا؟ سماج کا یہ خوف کہ عمر گزر جائے گی لڑکیوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کا رشتہ قبول کرلیں، چاہے وہ رشتہ اُن کے لیے زہر ہی کیوں نہ ہو۔ مثال؟ وہ لڑکی جو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر شادی کے بعد اپنے شوہر کے مار پیٹ کو اس لیے برداشت کرتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
میرے سوا اُسے کون سمجھے گا؟
کچھ لڑکیاں خود کو مینٹل ہیلتھ کیئر ٹیکر سمجھنے لگتی ہیں۔ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنے پارٹنر کے غصے، بے وفائی، یا منفی عادات کو اپنی محبت سے ٹھیک کردیں گی۔ یاد رکھیں اگر کوئی شخص آپ کو زخم دیتے ہوئے بھی نہیں ہچکچاتا، تو وہ آپ کی محبت کا مُحتاج نہیں—آپ کی بے بسی کا محتاج ہے۔
پرانی یادیں۔۔۔ ہم نے اتنا کچھ شیئر کیا تھا
یہ وہ جال ہے جو سب سے مضبوط ہوتا ہے۔ اُس کا وہ پیغام جو رات 2 بجے آیا تھا، وہ پہلی ڈیٹ پر اُس نے ہاتھ پکڑ لیا تھا، یا وہ دن جب اُس نے کہا تھا تم میرے لیے سب کچھ ہو—یہ یادیں لڑکیوں کو ایک مصنوعی امید میں جکڑے رکھتی ہیں۔ مگر سچ یہ ہے: جو شخص آپ کو ماضی کی یاددہانی پر رکھنا چاہتا ہے، وہ آپ کو حال میں کوئی عزت نہیں دیتا۔
میری ویلیو اِس رشتے سے جُڑی ہے
ہمارے ہاں لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ “کامیاب ہونے کا مطلب ہے شادی شدہ ہونا۔” یہی سوچ اُنہیں کسی بھی رشتے کو تھامنے پر مجبور کردیتی ہے چاہے وہ رشتہ اُن کی خود اعتمادی کو روز مٹی میں ملا رہا ہو۔ حیرت کی بات ہے: جو لڑکی اپنے آپ کو بیوہ یا طلاق شدہ کہلوانے سے ڈرتی ہے، وہ اپنے آپ کو زندہ لاش کہلوانے پر کیوں تیار ہوجاتی ہے؟
کچھ مثالیں جو آپ کو اپنے آس پاس ضرور ملیں گی:
وہ دوست جو ہر ملاقات میں اپنے بوائے فرینڈ کی بے عزتی کے واقعے کو مذاق میں اُڑا دیتی ہے۔
وہ کزن جو شادی کے بعد اپنے چہرے پر بنے نیل پہنے ہوئے ہے مگر کہتی ہے یہ میرا قصور تھا۔
وہ کلاس فیلو جو اپنے پارٹنر کی طرف سے مسلسل کنٹرول کرنے پر کہتی ہے: یہ اُس کی فکر ہے۔
اگر آپ کا رشتہ آپ کو روزانہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میں کب تک یہ سب برداشت کروں گی؟، تو سمجھ جائیں کہ یہ محبت نہیں، یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے۔ یاد رکھیں زندگی کا سب سے خوبصورت رشتہ وہ ہے جہاں آپ کو اپنے آپ سے محبت کرنا سکھایا جائے۔
اور ہاں۔۔۔ یہ جملہ کبھی نہ بھولیں: تمہاری محبت کا امتحان یہ نہیں کہ تم کتنا سہہ سکتی ہو۔۔۔ بلکہ یہ ہے کہ تم کتنی خوش ہو سکتی ہو۔