
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا درد آپ کی سانسوں میں گھُلا ہوا ہے؟
کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے کسی سے کہنے کی بجائے اپنے ہونٹوں کو چبانا پسند کیا؟
کیا آپ نے کبھی ایک کمرے کے اندر چیخنے کی خواہش کی، مگر خاموشی سے دیوار کو گھورتے رہے؟
کیا آپ کے ہاتھ نے کبھی بے اختیار ہو کر آپ کی جلد کو نوچا، جیسے وہاں کوئی دکھ چھپا ہو؟
اور سب سے اہم… کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ سیلف ہارم ہے؟ نہیں، یہ کوئی فیشن نہیں، نہ ڈرامہ… یہ ایک خاموش چیخ ہے جو ہماری انگلیوں، ہونٹوں، یا پھر آنکھوں سے نکلتی ہے۔
سیلف ہارم صرف جسم کو نقصان پہنچانا نہیں، یہ دل کے زخموں کا جسم تک سفر ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہم اپنے جذبات کو بولنے کی بجائے اپنے ہی جسم سے بات کرنے لگتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ صرف توجہ کا بھوکا ہونا ہے؟ یا پھر…
‘میں ٹھیک ہوں’ جھوٹ کی قیمت
پاکستانی معاشرے میں جذبات کا اظہار کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ لڑکے روئیں تو کہا جاتا ہے مرد بنو!، لڑکیاں بات کریں تو شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نتیجہ؟ دل کا زخم ہاتھوں تک پہنچ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ لڑکی جو امتحان میں کم نمبروں پر ماں کے ڈر سے اپنے بازوؤں کو کاٹتی ہے… یا وہ نوجوان جو نوکری نہ ملنے پر دیوار سے سر ٹکراتا ہے۔
پرفیکٹ بننے کا دباؤ
ہمیں ڈاکٹر، انجینئر، یا پھر گورا ہونا ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم خود کو ناکام سمجھتے ہیں تو اپنے آپ کو سزا دینے لگتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ کالج کی وہ طالبہ جو فیس نہ بھر پانے پر خود کو مارتی ہے، وہ دراصل اپنے خوابوں کو مار رہی ہوتی ہے۔
تنہائی… بھیڑ میں بھی
ہم شادیوں، میلوں، اور واٹس ایپ گروپس میں گھرے ہوتے ہیں، مگر جب رات کو بستر پر لیٹتے ہیں تو خود سے بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ حقیقت؟ وہ لڑکا جو سوشل میڈیا پر ہزاروں فالوورز رکھتا ہے، مگر کٹے ہوئے ہاتھوں کو کبھی کسی کو دکھاتا نہیں۔
ایک اور حیرت انگیز حقیقت:
سیلف ہارم کبھی موت کی خواہش نہیں ہوتی… بلکہ زندگی کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ جیسے کوئی شخص آگ میں ہاتھ جلائے تو درد سے چُھٹکارا پانے کے لیے نہیں، بلکہ درد کو محسوس کرنے کے لیے۔
زخموں کو گہرا مت ہونے دیں
اگر آپ پڑھ رہے ہیں اور لگ رہا ہے کہ یہ تو میری کہانی ہے، تو یاد رکھیں: آپ کے اندر کا درد کسی بوتل، بلیڈ، یا خاموشی میں بند ہونے کے قابل نہیں۔ پاکستانی معاشرہ شاید آہستہ سیکھ رہا ہے، مگر آپ کی آواز کسی نہ کسی کو ضرور سننی چاہیے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ ایک ماں کی گود، ایک دوست کی مسکان، یا پھر ایک اجنبی کی بات… یہ سب زخم بھرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟… سوال یہ ہے کہ “آپ نے اتنا درد کیوں سہا؟”
اور جواب؟ یہ آپ کے اندر چھپا ہے… بس اسے بولنے دیں۔