Skip to content Skip to footer

عورت کی خود اعتمادی: کیا آپ خود سے محبت کرتی ہیں؟


کبھی سوچا ہے کہ آپ کی زندگی کے اہم فیصلے کون کرتا ہے؟
آپ کا لباس، آپ کے خواب، آپ کی خاموشیاں، آپ کی مسکراہٹیں۔۔۔ کیا یہ سب آپ ہیں یا وہ “لوگ” جن کا نام ہر گھر میں گونجتا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنی آواز کو دبایا ہے صرف اس لیے کہ “عورت کو شریف اور کم گو ہونا چاہیے؟ کیا آپ نے کبھی شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے جسم کے کسی حصے کو چھپانے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ کو وہ لمحہ یاد ہے جب آپ نے کسی کی تعریف سن کر چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی، مگر دل میں کہا: “یہ سب جھوٹ ہے، میں تو ویسی ہوں ہی نہیں”؟
کیا آپ نے کبھی اپنی کامیابی کو “خوش قسمتی” کہہ کر ٹال دیا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا ہے: “میں واقعی خود سے محبت کرتی ہوں؟”

یہ سوال آپ کو ایک ایسی جنگ میں کھڑا کر دیتے ہیں جہاں آپ کی ذات اور معاشرے کے “پیمانے” آمنے سامنے ہیں۔ خود اعتمادی کا سفر اُس دن شروع ہوتا ہے جب آپ یہ سوچنا بند کر دیتی ہیں کہ “لوگ کیا کہیں گے؟” اور یہ جان لیتی ہیں کہ آپ کی زندگی کا اصل “لوگ” آپ خود ہیں۔ 

وہ “خالہ جان” جو آپ کے دماغ میں بسی ہیں

ہر پاکستانی لڑکی کی زندگی میں ایک “خالہ جان” ضرور ہوتی ہیں۔ وہ جو آپ کے بالوں کے رنگ سے لے کر کیریئر کے انتخاب تک پر رائے دیتی ہیں۔ مگر کبھی غور کیا؟ یہ “خالہ جان” دراصل معاشرے کا وہ آئینہ ہیں جو آپ کو بتاتا ہے کہ “عورت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔”۔ مثال کے طور پر:
– “بیٹا، میڈیکل میں داخلہ لے لو، یہ شادی کے لیے اچھا ہے۔” 
– “تمہاری ہنسی بہت بلند ہے، پردیسی لگتی ہو۔” 
– “کماؤگی تو ٹھیک ہے، مگر گھر سنبھالنا نہ بھولنا۔” 

ان جملوں نے آپ کے اندر ایک خودکار تنقیدی نظام بنا دیا ہے۔ جیسے ہی آپ کوئی فیصلہ کرتی ہیں، یہ نظام چل پڑتا ہے: کیا یہ سب کے لیے قابلِ قبول ہوگا؟

وہ لمحہ جب آپ نے اپنی آواز کو مار دیا

ذرا اپنے بچپن کی وہ تصویر دیکھیں جب آپ بغیر کسی شرم کے گانا گاتی تھیں، اونچی آواز میں ہنستی تھیں، اور اپنے خواب “فضائیہ کی پائلٹ بننے” کے بتاتی تھیں۔ پھر کیا ہوا؟ کسی نے کہا: “لڑکیوں کو ایسے نہیں ہنسنا چاہیے”، کسی نے خواب کو بے وقوفی کہا۔۔۔ اور آپ نے اپنی آواز کو ایک ڈبے میں بند کر دیا۔ یہ ڈبا آج بھی آپ کے اندر موجود ہے۔ کیا آپ نے کبھی اسے کھولنے کی کوشش کی؟ 

خود سے محبت۔۔۔ ایک “غیر پاکستانی” تصور؟

ہمارے ہاں “خودغرضی” اور “خوداعتمادی” کو اکثر ایک ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کہا: “میں اپنے لیے وقت نکالوں گی”، تو فوراً جملہ سننے کو ملے گا: بیٹی، یہ خودغرضی ہے، عورت تو دوسروں کے لیے جیتی ہے۔
مگر ایک سوال یہ ہے کہ کیا خالی برتن سے کبھی کسی کو پانی پلایا جا سکتا ہے؟ جب تک آپ اپنے اندر کی “پیاس” نہیں بجھائیں گی، آپ دوسروں کو کیسے سیراب کریں گی؟ 


آپ نے کبھی نوٹس کیا؟ ہماری ہیروئنز فلموں میں بھی تب ہی تک “خوبصورت” ہوتی ہیں جب تک وہ روتی ہوئی، مظلوم، اور خاموش ہوں۔ جیسے ہی وہ اپنی آواز اٹھاتی ہیں، انہیں “بدتمیز” کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ کیا آپ کی زندگی بھی ایک “سکرپٹ” ہے جہاں آپ کو ہدایت دی جاتی ہے: “رول کو مت توڑو، تمہاری کردار کشی ہو جائے گی”؟

ایک چیلنج
آج سے پہلے جب بھی آپ نے خود کو کم تر سمجھا، کسی کے طعنے کو سچ مان لیا، یا اپنی خواہش کو دبا دیا۔۔۔ تو دراصل آپ نے معاشرے کے ہاتھوں میں ایک اور پتھر تھما دیا جو آپ کی خوداعتمادی کی عمارت کو گرانے کے لیے استعمال ہوگا۔ 
چیلنج یہ ہے کہ اگلی بار جب آئینے کے سامنے کھڑی ہوں، تو اپنے آپ سے کہیں: “میں تمہیں قبول کرتی ہوں، تمہاری خامیوں کے ساتھ۔۔۔ اور تمہاری خوبیوں کے ساتھ۔”

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.