Skip to content Skip to footer

عورت کی زندگی کے فیصلے: والدین یا خود کی مرضی؟



کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر آپ کے خوابوں کی دنیا بسنے سے پہلے ہی اجڑ جائے تو کیا محسوس ہوگا؟
وہ وقت جب آپ کے دل میں کوئی خواہش جنم لے، مگر اس سے پہلے ہی کوئی دوسرا فیصلہ سنادے؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا ہر فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے، چاہے وہ تعلیم ہو، شادی ہو، یا کوئی اور اہم موڑ؟
کیا یہ ضروری ہے کہ جو راستہ آپ کے والدین نے چُنا ہو، وہی آپ کے لیے بھی بہترین ہو؟
اگر زندگی آپ کی اپنی ہے تو فیصلے کسی اور کے ہاتھ میں کیوں ہوں؟
اور اگر والدین ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں تو پھر وہ بیٹیوں کی نافرمانی سے کیوں ڈرتے ہیں؟

یہ سوالات ہر اس لڑکی کے دل میں ضرور جنم لیتے ہیں جو اپنی زندگی کے کسی موڑ پر یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے فیصلے اس کے اپنے نہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہونا چاہیے؟ آئیے، اس پر کھل کر بات کرتے ہیں۔

والدین کا خوف: عزت یا سماج؟

زیادہ تر والدین اپنی بیٹیوں کے لیے فیصلے اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں اپنی بیٹیوں پر بھروسہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس معاشرے سے خوفزدہ ہوتے ہیں جس نے ایک مخصوص پیمانہ بنا رکھا ہے کہ لڑکی کی عزت اور اس کے فیصلے کے درمیان ایک لکیر ہونی چاہیے۔ اگر بیٹی نے خود کوئی فیصلہ کیا تو کیا لوگ کہیں گے؟ “لوگوں کی زبانیں کب رُکتی ہیں؟” یہی جملہ ہر گھر میں سننے کو ملتا ہے۔

خواب اور حقیقت کی جنگ

کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے کسی خاص شعبے میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ہو، مگر جواب میں یہ سننا پڑا ہو کہ “بیٹا، لڑکیوں کے لیے یہ فیلڈ مناسب نہیں!” یا پھر شادی کا معاملہ آیا ہو اور آپ کے پسندیدہ شریکِ حیات کی بجائے کسی اور کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا گیا ہو؟ یہ سب حقیقی زندگی کی کہانیاں ہیں جو ہر دوسری لڑکی کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں، مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔

بیٹی کی خوشی یا سماج کی تسلی؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اپنی بیٹی کی خوشی پر سماج کی تسلی کو فوقیت دیتے ہیں۔ والدین کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر بیٹی نے اپنی پسند سے شادی کی یا اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ لیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ مگر سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کی رائے زندگی بھر کی خوشی سے زیادہ اہم ہے؟

ہر بیٹی باغی نہیں ہوتی، مگر…

یہ کہنا کہ جو لڑکی اپنی پسند کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہے، وہ باغی ہے، سراسر غلط ہے۔ ہر بیٹی باغی نہیں ہوتی، بس وہ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینا چاہتی ہے۔ جب ایک بیٹے کو مکمل آزادی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرے، تو بیٹی کو کیوں نہیں؟

کیا عورت کے فیصلے غلط ہوتے ہیں؟

کیا ہر عورت کا فیصلہ غلط ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو پھر وہی عورت جب کسی گھر کی بہو بن کر آتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے، فیصلے کرتی ہے، تو وہ کیسے صحیح ہوجاتے ہیں؟ اگر ایک عورت گھر کو سنبھال سکتی ہے، خاندان چلا سکتی ہے، تو کیا وہ اپنی زندگی کے فیصلے نہیں کر سکتی؟

فیصلے، آزادی اور اعتدال

یہ حقیقت ہے کہ والدین کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیٹیوں کو ان کی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ والدین کی رہنمائی ضروری ہے، مگر ان پر فیصلے مسلط کرنا نہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو سنیں، سمجھیں اور انہیں اعتماد دیں کہ وہ خود اپنی زندگی کے فیصلے لے سکیں۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر ایک بیٹی کو اس کے اپنے فیصلے کرنے دیے جائیں، تو شاید وہ اپنے والدین کے لیے زیادہ فخر کا باعث بنے، بجائے اس کے کہ وہ کسی اور کے فیصلوں کے بوجھ تلے دبی رہے۔ زندگی کے فیصلے اگر دل سے کیے جائیں، تو زندگی خود خوشگوار ہوجاتی ہے۔ اور کیا ہم سب یہی نہیں چاہتے؟

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.