
کب تک؟ کب تک وہ صبح کے اُجالے میں چائے کے کپ کو گھورتے ہوئے یہ سوچتی رہے گی کہ “میں نے اپنی خواہشوں کو کب دفن کر دیا؟”
کب تک ماں بننے کے بعد اپنی ڈگری کو الماری میں بند کر کے بیٹھی رہے گی؟
کیا واقعی وہ اپنے شوہر کے پرس سے پیسے مانگتے ہوئے ہمیشہ اِس خوف سے کانپے گی کہ “آج نہیں تو کل، یہ سوال ضرور اُٹھے گا: تم نے کیا کمایا؟”
کیا یہ سچ نہیں کہ جب تک عورت کی اپنی جیب میں ایک نوٹ بھی نہ ہو، اُس کی آواز میں کانپن سا رہتا ہے؟
مالی آزادی صرف پیسے کمانے کا نام نہیں، یہ اپنی زندگی کے فیصلوں پر کنٹرول کا دوسرا نام ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں عورت کو “گھر کی رانی” کہہ کر اُس کے ہاتھوں میں چابیوں کا گچھا تھما دیا جاتا ہے، وہیں اُس کی اپنی ذاتی چابی یعنی (بینک اکاؤنٹ) کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی اپنی کمائی کو معاون سمجھتی ہیں، مرکزی نہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ جب تک آپ کے پاس اپنے وسائل نہیں، آپ کی مرضی بھی کوئی مرضی نہیں۔
راز یہ ہے:
مالی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کروڑوں کمائیں، بلکہ یہ کہ آپ کے پاس “نہ کہنے” کا اختیار ہو۔ مثال دیں؟ جی ضرور!
– وہ ماں جو بچوں کے سکول فیس بڑھنے پر خاموشی سے اپنے زیور بیچ دیتی ہے، کیونکہ شوہر سے مانگنے میں شرم آتی ہے۔
– وہ بیٹی جو اپنے بھائی کی فیس بھرنے کے لیے اپنی پڑھائی چھوڑ دیتی ہے، کیونکہ گھر میں صرف لڑکے کا مستقبل اہم ہے۔
– وہ بیوی جو 20 سال بعد طلاق پاتی ہے اور اپنے لیے کوئی گھر تک نہیں خرید سکتی، کیونکہ اُس نے اپنے نام پر اکاؤنٹ کھولنے کو “بے وفائی” سمجھا۔
حیران کن؟ جی ہاں!
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں 80% خواتین کے پاس اپنا بینک اکاؤنٹ تک نہیں؟ یا یہ کہ گھریلو تشدد کے 60% مقدمات میں عورت مالی مجبوریوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتی ہے؟ یہ وہ سچ ہے جو ہماری چائے کی چسکیوں میں گم ہو جاتا ہے۔
اب وہ لمحہ آگیا ہے جب آپ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو خود لکھیں:
مالی آزادی کا مطلب ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کے لیے قرض لے سکیں، بغیر کسی کے منہ کی طرف دیکھے۔ مطلب یہ کہ آپ بیمار ہوں تو ہسپتال کے بل پر اپنے گہنے گروی نہ رکھنے پڑیں۔ مطلب یہ کہ آپ کے پاس “نہیں” کہنے کی ہمت ہو، جب کوئی آپ کی مرضی کے بغیر آپ کی زندگی کا فیصلہ کرے۔
پاکستانی معاشرہ آپ کو یہ بتائے گا کہ عورت کی عزت اُس کے گھر میں ہے، مگر سچ یہ ہے کہ عزت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ اور ہاتھ تبھی مضبوط ہوتے ہیں جب اُن میں کاغذ کے نوٹوں کی طاقت ہو۔ مالی آزادی آپ کو اڑنے کے لیے پر نہیں دیتی، بلکہ اُس زنجیر کو توڑنے کا ہتھیار دیتی ہے جو آپ کے پروں کو باندھے ہوئے ہے۔