
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کے گھر میں لڑکا روتا ہے تو اُسے فوراً مرد بنو! کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کا دوست اپنی بیوی کے ساتھ بازار میں چپکے سے ہاتھ پکڑ لے تو لوگ اُسے مستوراں مرد کہنے لگتے ہیں؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ جب کوئی مرد اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے تو اُسے کمزور سمجھ لیا جاتا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنے باپ، بھائی، یا دوست کو دیکھا ہے جو 12 گھنٹے کی نوکری کے بعد بھی گھر میں غصے کا شکار ہوتا ہے مگر کبھی تھکا ہوا ہوں نہیں کہتا؟
کیا یہ سب مردانگی کے نام پر ہماری اپنی بنائی ہوئی جہنم ہے؟
ٹاکسیک masculenity وہ زہریلا پودا ہے جو ہمارے معاشرے کی اینٹ اینٹ میں اُگا ہوا ہے۔ یہ مردوں کو ایک ڈبے میں بند کر دیتی ہے: رونا منع ہے کماؤ گے تو حکم چلاؤ گے، عورت کی بات مانو گے تو بیوقوف بن جاؤ گے۔ مگر یہ ڈبہ جتنا سخت ہے، اندر کا انسان اُتنا ہی کچلا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف مردوں کی ذہنی صحت کو کھا رہا ہے بلکہ خواتین کے لیے بھی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا سبب بن رہا ہے۔
مرد کو درد نہیں ہوتا:
ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں ایک نوجوان ٹانگ توڑ کر بھی مسکرا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے پوچھا: درد کیوں نہیں بتایا؟ جواب ملا: مرد ہوں، رونا کیسے؟ یہ جملہ آپ نے بھی کہیں نہ کہیں سنا ہوگا۔ ہمارے ہاں مرد کو درد کا پتلا بنایا جاتا ہے، مگر اندر سے وہ ایک زخمی شیر بن جاتا ہے جو کبھی کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔
تمہاری بیوی تمہیں چلاتی ہے؟:
شادی شدہ مردوں کی محفلوں میں یہ جملہ ضرور سنائی دے گا۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کی بات مان لے تو اُس پر مستوراں کا لیبل لگ جاتا ہے۔ مگر کیا محبت اور احترام کا تعلق حکم چلانے سے ہے؟ ہم بھول گئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔
مرد کی عزت اُس کی جیب میں ہوتی ہے:
پاکستانی معاشرے میں مرد کو صرف ایک کمائی مشین سمجھا جاتا ہے۔ نوکری چھوٹی؟ تنخواہ کم؟ فوراً نااہل کا ٹیگ۔ مگر کبھی کسی نے اُس نوجوان سے پوچھا جو ڈیلیورے کی نوکری کرتا ہے، دو بہنوں کو پڑھاتا ہے، اور رات کو نیند کی گولیاں کھاتا ہے؟ اُس کی مردانگی کا پیمانہ صرف روپے ہی کیوں؟
غصہ مرد کا زیور ہے:
گلی محلے کی لڑائیوں میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے مردوں کو دیکھیں۔ یہاں تک کہ گھر میں بیوی بچوں پر چلّانا بھی مردانہ حمیت سمجھی جاتی ہے۔ مگر کیا غصہ واقعی طاقت ہے؟ یا یہ ایک ایسا زہر ہے جو گھر کی دیواروں کو کھوکھلا کر رہا ہے؟
پاکستان میں 68% مرد اپنی ذہنی تکلیف چھپاتے ہیں کیونکہ مرد ڈاکٹر کے پاس کیوں جائیں؟
جس لڑکے کو بچپن میں روکنے پر ڈانٹا جاتا ہے، وہ جوانی میں اپنی بیٹی کو بھی رونے پر ڈانٹتا ہے۔ یہ زہر نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔
مرد بنو کہنے والے معاشرے نے ہی مردوں کی اوسط عمر عورتوں سے کم کر دی ہے۔ کیوں؟ دباؤ، تمباکو نوشی، اور دل کے امراض۔
ٹاکسیک masculenity کو توڑنے کا مطلب مردانگی ختم کرنا نہیں، بلکہ اُسے انسانیت سے جوڑنا ہے۔ اگلی بار جب آپ کا بیٹا روتے ہوئے آئے تو اُسے گلے لگائیں، نہ کہ ڈانٹیں۔ جب آپ کا بھائی کہے میں تھک گیا ہوں تو اُس کی بات سنیں۔ یاد رکھیں: اصل مرد وہ نہیں جو دنیا سے لڑتا ہے، بلکہ وہ جو اپنے اندر کے زہر سے لڑتا ہے۔