
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جب آپ کا باپ رات کے اندھیرے میں بالکونی میں کھڑا سگریٹ پیتا ہے تو اس کی آنکھوں میں کون سی باتیں دفن ہوتی ہیں؟
کیا آپ نے محسوس کیا کہ جب آپ کا بھائی دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا ہے اور کھانے کی میز پر صرف “سب ٹھیک ہے” کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے تو اس کے جذبات کہاں جا کر دم توڑتے ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جو دوست ہر وقت ہنسنے والا اور مزاحیہ لگتا ہے، وہ کیوں اچانک گہرے سانس لے کر فون پر کہتا ہے، “یار، بعد میں بات کرتے ہیں؟
یہ خاموشی محض لاپرواہی نہیں، نہ ہی بے حسی ہے۔ یہ وہ زخم ہیں جو معاشرے نے مردوں کے لیے “مردانگی” کے نام پر لازمی قرار دے رکھے ہیں۔
خاموشی کا ریگستان
ہمارے معاشرے کا مرد جب بولتا نہیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ بلکہ اسے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کی بات اس کے کردار پر داغ نہ بن جائے۔ وہ ڈرتا ہے کہ اگر وہ کہے گا کہ میں تھک گیا ہوں، تو لوگ کہیں گے، مرد کو تھکن نہیں ہوتی۔ اگر وہ روئے گا، تو سنیں گے، مرد آنسو نہیں بہاتے۔ یہ خاموشی دراصل ایک سسکتا ہوا احتجاج ہے۔
راز کی بات: وہ کیوں چپ رہتے ہیں؟
ذرا اپنے اردگرد دیکھیں:
– وہ باپ جو بیٹے کی فیس بھرنے کے لیے اپنی دوا چھوڑ دیتا ہے، مگر کبھی نہیں کہتا کہ “میں بیمار ہوں”۔
– وہ شوہر جو بیوی سے لڑائی کے بعد رات بھر چپ چاپ چھت پر ٹہلتا رہتا ہے، کیونکہ اسے سکھایا گیا ہے کہ “عورت سے الجھنا مرد کی توہین ہے”۔
– وہ دوست جو نوکری چھوٹنے کے بعد آپ کو مسکراتا ہوا ملتا ہے، مگر جب تنہائی میں ہوتا ہے تو خودکشی کے خیالات سے لڑتا ہے۔
یہ سب خاموشی کے قیدی ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ کھل کر بات کریں گے تو معاشرہ انہیں کمزور ٹھہرائے گا۔ پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مرد کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ “تمہارے جذبات تمہاری ذمہ داری نہیں، تمہاری ذمہ داری صرف دوسروں کو سنبھالنا ہے”۔
حقیقی زندگی کی مثالیں: کیا آپ نے کبھی نوٹس کیا؟
– نمونہ ۱: جمعے کی نماز کے بعد بزرگوں کی محفل۔ کوئی بھی اپنے گھریلو مسائل پر بات نہیں کرتا، بلکہ سب “سیاست” اور “مہنگائی” پر بحث کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ گھر کی بات کرنا “عورتوں کا کام” سمجھا جاتا ہے۔
– نمونہ ۲: شادی کی تقریب میں دولہا کی طرف دیکھیں۔ وہ مسکرا رہا ہے، مگر اس کی آنکھیں کہہ رہی ہیں، “میں سارا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہوں، چاہے میرا دل چاہ رہا ہو کہ میں بھاگ جاؤں”۔
– نمونہ ۳: ہاسٹل کا وہ لڑکا جو گھر فون کرتا ہے اور ماں سے کہتا ہے، “امی، پیسے بھیج دیجیے گا”، مگر یہ نہیں کہتا کہ “امی، میں تنہا محسوس کر رہا ہوں”۔
مرد کی خاموشی اس کا ہتھیار نہیں، زخم ہوتا ہے جو اندر ہی اندر سڑتا رہتا ہے۔ جب ایک مرد کہتا ہے ‘میں ٹھیک ہوں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے میں تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ ہمارے معاشرے نے مرد کو بتا دیا ہے کہ اس کا درد تب تک اصلی نہیں جب تک وہ اسے اپنی موت کی وجہ نہ بنا لے۔
خاموشی کو توڑیں احتجاج کو گلے لگائیں
اگر آپ کا کوئی مرد ساتھی خاموش ہے تو اس سے پوچھیں کہ تم واقعی ٹھیک ہو؟۔ اگر وہ ہاں کہے تو اس کی آنکھوں میں جھانک کر دوبارہ پوچھیں۔ ہو سکتا ہے وہ دوسری بار اپنا درد بانٹنے پر راضی ہو جائے۔ یاد رکھیں مردوں کی خاموشی کو معمول مت سمجھیں۔ یہ ایک سسٹم کا شکار ہیں جسے ہم سب نے مل کر بنایا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسے توڑا جائے۔ خاموشی مرد کا زیور نہیں، زنجیر ہوتی ہے۔ اور زنجیریں توڑنے کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں۔