
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ شادی کے بعد بیوی کا دفتر جانا کس طرح گھر کی چائے میں ایک چٹکی نمک بن جاتا ہے؟
کبھی کڑوا، کبھی میٹھا؟ یا پھر یہ کہ جب بیوی کا پروموشن ہوتا ہے تو شوہر کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے اکڑن کیوں پھیل جاتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ تمہاری تنخواہ میری تنخواہ سے زیادہ کیوں ہے؟ جیسا سوال کس طرح رات کے کھانے کو زہر بنا دیتا ہے؟
اور وہ لمحہ… جب بیوی کو دفتر سے کال آتی ہے اور شوہر کا دل چاہتا ہے کہ فون کو کھڑکی سے باہر پھینک دے، یہ کیوں؟
خلاصہ یہ کہ میاں بیوی میں نوکری کو لے کر جھگڑے دراصل روٹی کے ڈبے سے نہیں، انا کے صندوق سے نکلتے ہیں۔ یہ لڑائی روپے پیسے کی نہیں، رتبے کی ہوتی ہے۔ جہاں مرد کو معاشرے والے کہتے ہیں تمہاری بیوی تم سے زیادہ کما رہی ہے؟ اور عورت کو گھر والے ٹوکتے ہیں تمہیں کس بات کی کمی تھی جو نوکری کرنے لگی؟
یہ تو سنا ہی ہوگا؟
تم نے میری عزت کا خیال نہیں رکھا!
پاکستانی معاشرے میں مرد کو کفیل سمجھا جاتا ہے۔ جب بیوی کی آمدنی شوہر سے زیادہ ہو تو کچھ مردوں کے لیے یہ گویا سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے نکلتا دیکھنا ہوتا ہے۔ مثال لیجیے احمد صاحب کا کیس، ان کی بیوی نے پرائیویٹ کمپنی میں ترقی پا لی، مگر احمد صاحب کے دوستوں نے طنزاً کہا، اب تو تمہیں بیوی کی اجازت کے بغیر سگریٹ بھی نہیں ملے گی! یہاں نوکری نہیں، “انا” کا مسئلہ ہے۔
تمہیں گھر اور نوکری میں توازن نہیں آتا!
عورت کے کندھوں پر دوہرا بوجھ: دفتر کی پرزور میٹنگز اور گھر کی چولہے چکی۔ اگر وہ تھک کر سو جائے تو شوہر کہتا ہے، “تمہیں تو بس نوکری ہی عزیز ہے!” اور اگر وہ چھٹی لے کر گھر سنبھالے تو باس کہتا ہے، “تمہارے پاس کام کے علاوہ ہر چیز کی فرصت ہے!” یہ دوہرا معیار کس کے لیے آسان ہے؟
تمہاری نوکری کی وجہ سے بچے بگڑ رہے ہیں!
یہ جملہ تو گویا پاکستانی خاندانوں کا “نشانِ امتیاز” ہے۔ جب بچے کا امتحان خراب ہو تو ماں کی نوکری کو کوہِ ہمالیہ بنا دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر ثناء کا بیٹا تو اُن کے ہسپتال کے شیڈول کے باوجود کلاس میں اول آیا، مگر پڑوسی کی گھریلو خاتون کا بیٹا فیل ہو گیا۔ مطلب؟ بچے کی پرورش نوکری نہیں، محبت اور توجہ سے ہوتی ہے۔
تمہاری نوکری ہماری ‘فیملی انزائٹی’ ہے!
جہیز کی طرح پاکستانی گھرانوں میں “فیملی انزائٹی” کا نیا تحفہ آیا ہے۔ خاندان والے بیوی کی نوکری کو اپنی ذات پر حملہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر شازیہ کی ساس کو ہر وقت شکایت ہے کہ “بہو کے دفتر جانے سے لوگ کیا کہیں گے؟ ہماری حیثیت پر داغ لگے گا!” گویا نوکری کرنا کوئی جرم ہے!
ہماری محبت کہاں گئی؟
نوکری کے بعد ملنے والے وقت کی کمی کو اکثر محبت کی کمی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ وقت کا نہیں، ترجیحات کا ہوتا ہے۔ جیسے عمران اور فاطمہ کا واقعہ کہ دونوں ڈاکٹر ہیں، مگر جب فاطمہ نے ہسپتال کا ایکسیڈنٹ ایمرجنسی سنبھالا تو عمران نے کہا “تمہیں گھر کی پرواہ ہی نہیں!” حالانکہ وہ تو ایک زندگی بچا رہی تھی۔
نوکری کو لے کر لڑائی دراصل ایک دوسرے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شوہر اگر بیوی کی کامیابی پر اُس کا ہاتھ تھام لیں، اور بیوی اگر شوہر کی بے چینی کو نفسانیات کی بجائے “محبت” سمجھیں، تو یہ جنگ نہیں، ایک نئی شروعات ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیں کہ گھر کی چھت کو گرانے والا نوکری نہیں، ایک دوسرے کے جذبات کو نظرانداز کرنا ہے۔ اور ہاں! اگلی بار جب آپ کی بیوی دفتر سے لیٹ آئے تو اُسے “ٹیڑھی نظروں” کی بجائے گرم کھانا پیش کریں کیونکہ وہ جس “باس” سے لڑ کر آئی ہے، اُس سے زیادہ خطرناک تو آپ کی خاموشی ہو سکتی ہے۔