
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک چودہ سالہ لڑکی کی آنکھوں میں بڑھاپا کیوں ہوتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں وہ کون سی مجبوریاں ہیں جو اسے انکل کے فون نمبر تک پہنچا دیتی ہیں؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ جب معاشرہ ایک لڑکی کو بوجھ سمجھے، تو وہ کیسے خود کو تحفے کی طرح پیش کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنی گلی میں کھڑی اس بچی کو دیکھا ہے جو اچانک نئے کپڑے پہن کر آتی ہے، مگر آنکھیں چھپاتی ہے؟
پاکستانی معاشرے کا ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ ہماری نابالغ لڑکیاں شوگر ڈیڈی کی تلاش میں اپنی جوانی گھٹیا ڈیلز پر بیچ رہی ہیں۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، یہ آپ کے شہر کے اسکوائر، مالز، اور یہاں تک کہ کوچوں میں ہو رہا ہے۔ جہاں غربت، خاندانی دباؤ، اور معاشرتی بے حسی مل کر انہیں اس دلدل میں دھکیل دیتی ہیں۔
انکل کا کارٹون نہیں، کارنر پر کھڑی گاڑی:
سوچیے وہ لمحہ جب ایک لڑکی اپنے بھائی کے فیس کے لیے، ماں کے ہسپتال کے بل کے لیے، یا بس اپنے گھر والوں کو خوش کرنے کے لیے کسی اجنبی کی گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہ انکل اسے شاپنگ کروا کر، موبائل دے کر، اس کی معصومیت کا سودا کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، یہ ٹرانسیکشن کبھی کیش میں نہیں ہوتی… یہ اُدھار پر ہوتی ہے، اور چُکانا پڑتا ہے عمر بھر۔
سوشل میڈیا: شوگر ڈیڈی کا جدید بازار:
کیا آپ جانتے ہیں کہ آج کل نابالغ لڑکیوں کو فالوورز کے بجائے “سپانسرز” چاہیے؟ انسٹاگرام پر ایک خوبصورت سی سیلفی کے نیچے کمنٹس پڑھیں: میں آپ کی تعلیم کا خرچہ اٹھا سکتا ہوں۔ مگر یہ تعلیم کا خرچہ نہیں… یہ اُس لڑکی کی عزت کا سودا ہے جو اسے پتا ہی نہیں کہ ٹیوشن فیس اور پرسنل فیورز میں فرق کیا ہوتا ہے۔
ہم نے تو صرف دوستی کی تھی!:
یہ جملہ اُس لڑکی کا ہے جسے پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے اپنے بڑے دوست کے خلاف بیان دیتے دیر ہو گئی۔ معاشرہ اسے بے غیرت کہتا ہے، مگر کبھی اُس کے باپ سے نہیں پوچھتا کہ جب وہ بے روزگار تھا، تو کس نے اُس کی بیٹی کو گفٹ میں نیا موبائل دیا تھا؟
وہ جملے جو آپ کو چونکا دیں گے:
آج کل لڑکیوں کو مینٹین کرنا آسان ہے… بس ایک وائی فائی کنکشن اور تھوڑی سی تعریف چاہیے، کسی شوگر ڈیڈی کا انٹرویو۔
جب تک آپ اپنی بیٹی کو انمول نہیں سمجھتے، کوئی اور اُسے قیمتی بنا کر استعمال کر لے گا۔
ہماری لڑکیاں اپنی ڈرائنگ روم کی دیواروں پر ڈیزائنر بیگز لٹکانے کے لیے اپنی روحیں لٹکا دیتی ہیں۔
یہ کہانی صرف ان لڑکیوں کی نہیں… یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ جب تک ہم غربت کو قدرتی سمجھتے رہیں گے، یہ شوگر ڈیڈی کا کاروبار قدرتی ہی لگے گا۔ یاد رکھیے، جو معاشرہ اپنی بچیوں کو تحفظ نہیں دے سکتا، وہ کبھی بھی شوگر سے میٹھا نہیں ہو سکتا۔