Skip to content Skip to footer

پارٹنر کا ماضی ڈھونڈنا: اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے پارٹنر کی ماضی کی کہانیاں آپ کے دل میں اِس قدر کیوں کھدکتی ہیں؟
کیا یہ خواہش کبھی آپ کو راتوں کی نیند اُڑا دیتی ہے کہ اگر میں اُس کے کل کو جان لوں تو شاید آج کو بہتر بنا سکوں؟ یا پھر یہ ڈر آپ کے پیچھے پڑا ہے کہ کہیں ماضی کا کوئی سایہ ہمارے آج پر تو نہیں گرنے والا؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ لاہور کی گلیوں میں چلتے ہوئے، کراچی کی رونقوں کے بیچ، یا اسلام آباد کی خاموشی میں بھی یہ سوال آپ کے ذہن کی دیواروں سے ٹکراتا رہتا ہے: اگر میں اُس کے کل کو دیکھ لوں تو کیا میرا آج بدل جائے گا؟ 

ہر رشتے کی بنیاد پر اعتماد ہوتا ہے، مگر جب پرانے قصے ہاتھ لگ جائیں تو یہی بنیاد کھوکھلی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں رشتوں کو خاندان کی عزت سے جوڑ دیا جاتا ہے، پارٹنر کا ماضی جاننے کی خواہش اکثر ایک خاموش جنگ بن جاتی ہے۔ کبھی یہ جنگ موبائل فون کے پیغامات تک، تو کبھی فیملی کے پرانے دوستوں کی گپ شپ تک پھیل جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ماضی کو کھنگالنے سے حال محفوظ ہو جاتا ہے؟

وہ لمحہ جب جاننے کی ہوس رشتے کو کھا جاتی ہے:

ذرا تصور کریں، آپ نے اپنے پارٹنر کا پرانا فون اُٹھا لیا، اور اچانک ایک نام نظر آگیا جسے آپ نے کبھی نہیں سُنا۔ دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ ہاتھ کانپتے ہیں۔ آنکھیں پیغامات کے الفاظ کو نگلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ کون ہے؟ کب کی بات ہے؟ کیا اب بھی…؟ یہی وہ لمحہ ہے جب خیالات کا طوفان آپ کو اُس شخص سے دور کر دیتا ہے جو آج آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیا یہ جاننے کی ہوس دراصل ایک زہر ہے جو رشتے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے؟ 

پاکستانی معاشرہ: جہاں کل کی گھٹن آج کو مار دیتی ہے:

ہمارے ہاں تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی کے گھر والے لڑکے کے ماضی کو پرکھنے کے لیے اپنے ذاتی ایجنٹ لگا دیتے ہیں۔ کبھی چچا جان کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ پتا لگاؤ اِس کے کالج کا کوئی سکینڈل تو نہیں تھا، تو کبھی خالہ جان کو ہدایت ہوتی ہے کہ اُس کے پرانے دوستوں سے ملاقات کرو۔ مگر افسوس، یہی کوششیں اکثر رشتے کی نزاکت کو توڑ دیتی ہیں۔ مثال؟ وہ لڑکا جو اپنی گرل فرینڈ سے ٹوٹنے کے بعد نیا رشتہ شروع کرتا ہے، مگر اُس کا ہر عمل پچھلے تجربے کی چھاپ لئے ہوتا ہے۔ تم تو بالکل اُس جیسی ہو! ، یہ جملہ کتنے رشتوں کی موت کی وجہ بنا ہوگا؟ 

حل کا راز: ماضی کو دفن کرنا نہیں، اُسے سمجھنا ہے:

سچ تو یہ ہے کہ ہر انسان کا ماضی اُس کی شخصیت کا ایک پرتا ہوتا ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ پرتا آج کے رشتے کی کتاب کا عنوان بنے۔ مثال کے طور پر، وہ لڑکی جو کبھی کسی اور کے ساتھ گھومتی تھی، شاید اُس نے اُس تجربے سے سیکھ کر آپ کے ساتھ زیادہ ایماندارانہ تعلق جوڑا ہو۔ یا وہ لڑکا جس کا خاندانی تنازعہ تھا، شاید وہ آپ کو اپنی زندگی کا اطمینان بخشنا چاہتا ہو۔ ماضی کو سمجھنے کی کوشش کرو، اُسے کورٹ میں ثبوت بنانے کی نہیں۔

کل کی دیوار پر آج کا دروازہ مت توڑو!

اگر آپ کو لگتا ہے کہ پارٹنر کا ماضی جان کر آپ کا دل ہلکا ہو جائے گا، تو ذرا اُن لوگوں سے پوچھیں جو اپنے تجسس کے باعث تنہا رہ گئے۔ یاد رکھیں: جو رشتہ آج ہے، اُس کی قدر کرو۔ کل کی کتاب کے اوراق الٹنے سے پہلے سوچو، کیا یہ آج کے باب کو بھی پھاڑ دے گا؟

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کے سوالوں کے جواب بھی شاید اُتنے ہی تکلیف دہ ہوں گے جتنا جواب نہ ملنا؟ تو پھر کیوں نہ اِس خواہش کو ایک نئی تعبیر دی جائے: ماضی کو قبرستان میں چھوڑ دو، زندہ رشتے اُجالوں میں پروان چڑھتے ہیں۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.