Skip to content Skip to footer

پرائیویٹ تصاویر کا غلط استعمال اور بلیک میلینگ: ‘دیکھ کر ڈیلیٹ کر دوں گا’



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جو سیلفی آپ نے اپنے کمرے کی تنہائی میں کھینچی تھی، وہ کسی اور کی سکرین پر کیسے پہنچ گئی؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ جب کوئی نامعلوم اکاؤنٹ آپ کو فالو کرتا ہے تو آپ کی سانس تیز ہو جاتی ہے؟
کیا آپ نے کبھے گھر والوں سے ڈر کر اپنی کسی تصویر کو ڈیلیٹ کیا ہے، صرف اس خیال سے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہیں گے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور کے کالج میں پڑھنے والی وہ لڑکی جسے ایکس بائی فرینڈ نے بلیک میل کیا، وہ آپ کی بہن، بیٹی، یا آپ خود بھی ہو سکتی ہیں؟ 


ہماری انگلیوں کے نیچے چمکتی سکرین ہمیں طاقت دیتی ہے، مگر یہی طاقت کبھی ہماری بے عزتی کا ہتھیار بھی بن جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں پرائیویسی کا لفظ اکثر شرم کے پیچھے دب جاتا ہے۔ ہماری تصویریں، ہماری باتچیت، ہمارے لمحے… یہ سب ڈیٹا بن کر کسی کے ہاتھ میں ایسا ہتھوڑا بن سکتے ہیں جو ہماری زندگی کی عمارت کو یکدم توڑ دے۔ 

وہ کون لوگ ہیں جو آپ کی تصویر کو گولڈ سمجھتے ہیں؟

سوچیں، کراچی کے کسی دفتر میں کام کرنے والی عورت کو کال آیا: میں نے آپ کی وہ ویڈیو دیکھی ہے جہاں آپ دوپٹے کے بغیر تھیں۔ اگر چپ نہ رہیں تو یہ آپ کے باس کو بھیج دوں گا۔ یہ کوئی فلم کا ڈائیلاگ نہیں، بلکہ ایک حقیقی کہانی ہے جسے معاشرہ شرمندگی سمجھ کر دبا دیتا ہے۔ ہمارے ہاں بلیک میلرز کی سب سے بڑی طاقت ہماری خاموشی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ لڑکی کا گھر والے اسے ہی ڈانٹیں گے، نہ کہ مجرم کو پکڑیں گے۔ 

تم نے ہی تو شیئر کی تھی، اب روتی کیوں ہو؟ 

یہ جملہ ہر اُس لڑکی کو سننے کو ملتا ہے جو کسی ڈیجیٹل ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ مگر کیا واقعی قصور صرف شیئر کرنے کا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ کوئی آپ کی پرانی ڈیپ فیس تصویر کو AI ٹولز سے ننگی ویڈیو بنا سکتا ہے؟ اسلام آباد کے ایک واقعے میں ایک لڑکے کی ایڈٹ کی گئی تصویر اس کے نوکری کے انٹرویو تک پہنچ گئی، اور اسے اخلاقیات کے نام پر مسترد کر دیا گیا۔ کیا یہ انصاف ہے؟ 

ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟

خاندانی تربیت: گھر والے انٹرنیٹ خطرناک ہے کہہ کر موبائل چھین لیتے ہیں، مگر کبھی یہ نہیں بتاتے کہ سیف شیئرنگ کیا ہوتی ہے۔ 
قانون کی نیند: پاکستان میں سائبر کرائمز کے قوانین موجود ہیں، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے پولیس آپ سے ہی پوچھے گی: تم نے وہ تصویر بنائی ہی کیوں تھی؟
نوجوانوں کی بے حسی: واٹس ایپ پر فورورڈ ہونے والی کسی کی تصویر پر ہنسنا بھی تو اُس ظلم میں شمولیت ہے۔ 

ہماری سانسوں سے چلنے والا یہ دور ہمیں کنٹرول کرنے کی بجائے سمجھدار بننے کو کہتا ہے۔ تصویریں بنائیں، مگر ایسے جیسے آپ کسی کی ڈائری میں لکھ رہے ہوں۔ بات کریں، مگر ایسے جیسے آپ کے الفاظ کل کسی کے ہاتھ میں ہتھوڑا بن سکتے ہیں۔ یاد رکھیں: جو تصویر آپ کو شرمندہ کر سکے، وہ آپ کی نہیں، بلکہ دیکھنے والے کی شرمندگی ہونی چاہیے۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.