Skip to content Skip to footer

پرسنل سپیس اور ساتھ وقت گزارنے میں توازن: کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں؟
آج کل لاہور کے ایک کافی شاپ میں بورڈ لگا ہوا ہے کہ یہاں بیٹھیں بات کریں یا خاموش رہیں۔ ہم آپ کی تنہائی کا احترام کرتے ہیں۔
شاید یہی وہ پہلا قدم ہے جہاں ہم سیکھ رہے ہیں کہ ساتھ اور اکیلا دونوں ہی زندگی کے رخ ہیں۔

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ…
جب آپ گھر میں اکیلی کافی کا کپ تھامے بالکونی میں بیٹھی ہوں اور اچانک کوئی رشتہ دار دروازے پر دستک دے دے تو کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ ارے بھئی! ابھی تو میں نے اپنے آپ سے بات شروع کی تھی؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ فیملی گٹھڑی میں ہر کسی کی خیریت کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے آپ کی اپنی خیریت کہیں گم ہو گئی ہے؟
اور وہ دوست جو ہر شام بغیر بتائے آ جاتا ہے کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یار میں تو بس دس منٹ کی نیند اور چاہتا تھا تُو نے پورا ڈراما کھڑا کر دیا؟
کیا آپ کے گھر میں پرسنل سپیس کوئی گالی سمجھا جاتا ہے؟ جیسے ارے! یہ کیسی بات کرتی ہو؟ ہم تو تمہارے اپنے ہیں ناں!

زندگی کی دوڑ میں ہم اکثر اپنے اور دوسروں کے درمیان ایک لکیر کھینچنے سے ڈرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ جہاں رشتوں کی گرمجوشی ہماری پہچان ہے وہیں یہ گرمجوشی کبھی کبھی ہماری ذات کو گھٹن میں تبدیل کر دیتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم لوگوں سے پیار نہیں کرتے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے آپ سے پیار کرنا بھول گئے ہیں؟

وہ نکات جو آپ کو اپنے آئینے میں دیکھنے پر مجبور کر دیں گے:

ہاں جی ضرور آؤں گا! جھوٹا وعدہ یا مجبوری؟

ہر جمعرات کو خالہ کے ہاں دعوت ہے ہر اتوار کو کزنز کی پکنک اور ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی شادی۔ آپ کا دل چاہتا ہے کہ نہیں کہیں مگر زبان سے نکلتا ہے ہاں جی ضرور آؤں گا!۔ کیوں؟ کیونکہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ لا بولنا بے ادبی ہے۔ مگر یاد رکھیے: جب آپ مسکرا کر ہاں کہتے ہیں اور دل سے نہیں چاہتے تو یہ آپ کے چہرے کی جھریوں میں نہیں آپ کے اعصاب کی چڑچڑاہٹ میں نظر آتا ہے۔

موبائل فون: دشمن یا دوست؟

کبھی نوٹ کیا ہے؟ جب آپ فیملی کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں تو ہاتھ میں موبائل تھامے ہر پانچ منٹ بعد اسکرین چیک کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہی وہ واحد پرسنل سپیس ہے جسے ہم نے سماجی طور پر قبول کر لیا ہے۔ چلو کوئی نہیں کہے گا کہ فون چھوڑو بس یہی تو ہماری آخری پناہ گاہ ہے!

وہ ایک کمرہ جہاں دروازہ بند کرنا سزا ہے:

پاکستانی گھروں میں اگر آپ نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا تو فوراً سوال اٹھتے ہیں: بیمار ہو؟ غصے میں ہو؟ کوئی مسئلہ ہے؟ گویا دروازہ بند کرنا کوئی جرم ہے۔ مگر اسی کمرے میں بیٹھ کر آپ وہ کتاب پڑھتے ہیں وہ گانے سنتے ہیں جو آپ کی روح کو جِلا دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا اپنے آپ کو زندہ محسوس کرنے کے لیے ہمیں چور بننا پڑتا ہے؟

تم تو بدل گئے ہو! تبدیلی پر الزام:

جب آپ نے پہلی بار کہا: امی آج میں دوستوں کے ساتھ نہیں آ سکتا مجھے تھوڑا آرام چاہیے تو گھر والوں نے کہا: تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم تو پہلے ایسے نہیں تھے!۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ بدلے نہیں آپ نے صرف یہ سیکھ لیا ہے کہ آپ کی بھی کوئی اہمیت ہے۔

ہمارے معاشرے میں پرسنل سپیس کا تصویر ایک غیر ملکی چیز سمجھا جاتا ہے جیسے کہ یہ کوئی ایپل کا نیا آئی فون ہو جو ہم نے درآمد کیا ہو۔ مگر یاد رکھیے: جس طرح ہم مسجد میں جاکر اللہ سے اکیلا ہوتے ہیں اسی طرح ہمیں کبھی کبھی اپنے آپ سے ملنے کے لیے بھی ایک چھوٹی سی مسجد چاہیے ہوتی ہے۔

توازن کا مطلب یہ نہیں کہ آپ رشتوں کو ٹھکرا دیں بلکہ یہ کہ آپ اپنے وجود کو ایک تیار پھول کی طرح سنبھالیں جو کبھی کھلے تو خوشبو سب کو دے اور کبھی مرجھائے تو اسے پانی دینے کا حق صرف آپ کے پاس ہو۔ پاکستانی معاشرہ محبت کا گہوارہ ہے مگر محبت تبھی خوبصورت ہے جب اس میں آپ کی اپنی آواز بھی شامل ہو۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.