Skip to content Skip to footer

کام اور گھر کے درمیان توازن کیسے قائم کریں؟ کیا یہ کوئی جادوئی فن ہے یا ہماری سوچ کا کھیل؟


کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کا فون آپ کو دفتر کی چار دیواری میں قید کر دیتا ہے، جبکہ دل گھر کی چائے کی خوشبو سے بھرے کچن میں اٹکا رہ جاتا ہے؟
کیا آپ نے کبھی کلائنٹ کا میسج پڑھتے ہوئے بچے کے ہوم ورک پر نظر ڈالنے کا وعدہ توڑ دیا ہے؟
کیا آپ کے لیے “ٹیم میٹنگ” اور “خاندانی تقریب” ایک ہی وقت میں ہونے کی عادت بن گئی ہے؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی کو ناراض کیے بغیر یہ جنگ جیت سکتے ہیں؟ 

اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے۔ جیسے لاہور کی مصروف سڑک پر چلتے ہوئے آپ کو ہر طرف ہارن بجاتے لوگ نظر آتے ہیں، ویسے ہی زندگی کے اس دوڑ میں ہم سب کہیں نہ کہیں “ٹائم مینجمنٹ” کے ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

یہ جنگ کیوں؟

پاکستانی معاشرے میں جہاں خاندانی رشتوں کی گہرائی اور کام کی بڑھتی ہوئی دوڑ ایک ساتھ چلتی ہے، وہاں توازن کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے گرمیوں میں بجلی کے بغیر کولر چلانا۔ مگر راز یہ ہے کہ یہ توازن “ٹائم ٹیبل” سے نہیں، بلکہ “ترجیحات کے انتخاب” سے بنتا ہے۔ 



وہ راز جو آپ کی زندگی بدل دیں گے



وقت نہیں، موجودگی کا معیار بدلیں

مثال لیجیے کہ اگر آپ بچے کو کہانی سناتے ہوئے فون چیک کر رہے ہیں، تو وہ آپ کے ہاتھ میں موبائل کو اپنا “چوتھا بہن بھائی” سمجھنے لگے گا۔ دن میں صرف 30 منٹ نکالیں، لیکن اس وقت میں آپ کا دماغ، آنکھیں اور دل صرف اسی ایک کام پر ہوں۔ یہ وہ جادو ہے جو رشتوں کو “ڈیوٹی” سے “محبت” میں بدل دیتا ہے۔ 

نہیں کہنا سیکھیں…مگر احتیاط سے!

کراچی کے ایک دفتر میں کام کرنے والی عالیہ نے بتایا کہ “جب میں نے پہلی بار باس کو کہا کہ میں بیٹی کے سکول فنکشن میں جانے کے لیے آج آفس سے جلدی جا رہی ہوں، تو میرا دل دھڑک رہا تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ باس نے کہا ‘تمہاری بیٹی خوش قسمت ہے۔’

گھر بھی ایک ٹیم ہے، صرف آپ ہیرو نہیں

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین گھر اور دفتر کے کاموں میں مردوں سے 3 گنا زیادہ وقت صرف کرتی ہیں؟ مگر یہ توازن تب ٹوٹتا ہے جب ہم سمجھتے ہیں کہ “گھر کی ذمہ داریاں صرف عورت کی ہیں۔” اگلی بار جب بیوی دفتر سے گھر آئے، اسے چائے کا کپ تھما کر کہیں “آج میں ڈنر بناتا ہوں، تم آرام کرلو۔” یہ ایک چھوٹا سا اقدام ہے، مگر رشتوں کے پل کو مضبوط کر دیتا ہے۔ 

وہ لمحہ جب آپ کو لگے کہ سب ختم ہو رہا ہے..

یاد رکھیں کہ جب آپ کو لگے کہ آپ کچھ نہیں کر پا رہے، تو دراصل آپ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ دن جب آپ نے دفتر کی مصروفیت کے بعد گھر آکر بیٹے کو بخار میں ٹھنڈے پانی کی پٹی لگائی، یہ آپ کی “سپرہیرو فلم” کا کلائمکس تھا۔ 

حیران کن سچائی:
“کام اور گھر” کے درمیان توازن کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دونوں جگہ مکمل ہوں۔ اصل کامیابی تو یہ ہے کہ آپ دونوں جگہ موجود ہوں۔ ہر روز ایک ہی وقت پر گھر پہنچنا ضروری نہیں، مگر ہر روز گھر والوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ آپ ان کے لیے وہاں ہیں۔

زندگی کو “پریشر ککر” مت بنائیں

پاکستانی معاشرے کی سب سے خوبصورت بات ہے کہ یہاں ناکامی کا ڈر ہمیں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، مگر یاد رکھیں جو دروازہ آج آپ کے بچے کی مسکراہٹ کھولتا ہے، وہ کل کوئی پروموشن نہیں کھول سکتی۔ تو پھر کیوں نہ آج سے ہی یہ اصول اپنائیں کہ کبھی کام کو گھر مت آنے دیں، اور کبھی گھر کو کام پر مت لے جائیں۔ باقی سب…خدا کے بھروسے۔۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.