Skip to content Skip to footer

کام کی جگہ پر خواتین کو درپیش مسائل کا آسان سا حل



کیا آپ نے کبھی نوٹس کیا کہ خاندانی محفل میں لڑکے کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور لڑکیاں چٹائی بچھانے میں مصروف ہو جاتی ہیں؟
کیا آپ کو یاد ہے وہ لمحہ جب آپ کی ڈگری گھر والوں کے لیے فخر کا سبب تھی، مگر شادی کے بعد وہی ڈگری گھر سنبھالو کی نذر ہو گئی؟
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ دفتر میں ترقی کا موقع کیوں اُس “بھائی صاحب” کو ملتا ہے جو آپ سے کم تجربہ رکھتے ہیں؟
اور وہ دن جب آپ نے گلی میں چلتے ہوئے غیر محسوس طور پر دوپٹہ ٹھیک کیا، کیا یہ صرف کپڑے کی نہیں، بلکہ سماج کی نظر ٹھیک کرنے کی کوشش تھی؟ 

ہماری سانسوں میں سمایا ہوا یہ امتیاز کبھی کرسیوں کی جنگ بن جاتا ہے، تو کبھی ڈگریوں کے سہرے میں الجھا دیتا ہے۔ یہ کوئی دور کی کہانی نہیں، یہ آپ کے گھر کی دیواروں، آپ کے دفتر کی فائلز، اور آپ کی گلی کے موڑ پر موجود ہے۔

بیٹی تو پرایا دھن ہے، اس پر کیوں خرچ کریں؟

سوچیں جب ایک لڑکی کو بوجھ سمجھا جائے، تو کیا ہم اُس کے خوابوں کو بھی کچرا کہہ رہے ہیں؟ مثال لیجیے وہ گھر جہاں بیٹے کے لیے ٹیوشن فیس جمع کروانے والی ماں، بیٹی کو چپکے سے کہتی ہے: شادی کے بعد پڑھ لینا۔ 

تمہاری تو نوکری ہے، پھر بھی گھر کی ذمہ داریاں تمہاری ہی کیوں؟ 

دفتر سے گھر آتے ہوئے راستے میں ہی دوسری شفٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کھانا پکانا، بچوں کو سنبھالنا، میز صاف کرنا۔۔۔یہ سب وہ لیبر ہے جس کا کوئی معاوضہ نہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ پاکستان میں خواتین اوسطاً مردوں سے 3 گنا زیادہ گھریلو کام کرتی ہیں۔ یہ کوئی عدد نہیں، یہ ہماری عادت بن چکی ہے۔

آپ کو تو صرف گھر میں بیٹھنا ہے، باہر کیوں جا رہی ہو؟ 

سڑک پر چلنے والی ہر لڑکی کا دوپٹہ سماج کا سیکیورٹی کیمرہ بن جاتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ پارک میں بیٹھی عورت کو گھورنا کسی کا حق کیوں سمجھا جاتا ہے؟ اور وہ لمحہ جب آپ نے خود کو کسی نجی محفل میں محفوظ محسوس کیا ہو، مگر پھر بھی آپ کے جملوں میں احتیاط تھی؟ 

حیران کن سچائیاں: 

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں صرف ٪22خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں؟ وجہ؟ گھر والے مانتے نہیں۔ 
وہ لڑکی جو یونیورسٹی ٹاپ کرتی ہے، اُسے شادی کے بعد اپنا شوق چھوڑ دو کہہ کر پینٹنگز کو الماری میں بند کرنا پڑتا ہے۔ 
کیا آپ نے کبھی اپنی ماں کو اپنی بہن سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے: میں نے تو سب کچھ تمہارے لیے قربان کر دیا۔۔کیا یہ قربانی ہمارے معاشرے کا ٹرینڈ بن چکا ہے؟

یہ بات آپ کو الجھانے نہیں، جگانے کے لیے ہے۔ اگلی بار جب آپ کی بہن کو کھانا کھاتے ہوئے میز سے اٹھایا جائے، یا آپ کی ساتھی کو میٹنگ میں بولنے کا موقع نہ دیا جائے۔۔تو پوچھیں: کیوں؟  کیونکہ تبدیلی کا پہلا قدم وہ سوال ہے جو ہم نے اب تک اپنے دل میں دبا رکھا تھا۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.