Skip to content Skip to footer

کیا آزاد خیال لڑکیاں لیزبیئن ہوتی ہیں؟



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ایک لڑکی جینز پہن لے، دوستوں کے ساتھ کھل کر ہنس لے، یا اپنی رائے بے خوف ہو کر بیان کر دے، تو معاشرے کی نظروں میں وہ صرف آزاد خیال نہیں رہتی… بلکہ اس کے لیے ایک نیا لیبل تیار ہو جاتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور کے کسی کالج میں بیٹھی ہوئی سارہ جب اپنی کلاس فیلو شازیہ کے ساتھ قریبی دوستی کرتی ہے، تو اس کے گھر والے کیوں کہتے ہیں: بیٹا، لوگ کیا کہیں گے؟
اور کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جب کوئی لڑکی مردوں جیسی ملازمت کرتی ہے، جیسے سافٹ ویئر انجینئرنگ یا فٹبال کھیلتی ہے، تو اس کے بارے میں سرگوشیاں اٹھتی ہیں: یہ تو ضرور لیزبیئن ہوگی۔۔۔

پاکستانی معاشرہ ایک عجیب الجھن میں ہے۔ یہاں لڑکیوں کی ہر وہ آزادی جو روایتی بانٹے سے باہر قدم رکھتی ہے، اسے جنسی شناخت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر وہ بولتی ہے تو بے حیائی، اگر خاموش رہتی ہے تو شریف، اگر دوستی کرتی ہے تو تعلقات، اور اگر خود کو مردوں کے شعبوں میں ثابت کرتی ہے تو مردانہ صلاحیتیں۔ یہ سب کیوں؟ کیونکہ ہم نے عورت کو صرف ایک لیبل سمجھ رکھا ہے جو اس کے وجود کو ایک شیئرڈ ڈاکیومنٹ کی طرح redefine کرتا رہتا ہے۔ 

کیا دوستی کا مطلب ہمیشہ رومانس ہوتا ہے؟ 

مثال لیجیے: اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں مہک اور علیہ کی دوستی کو “غیر معیاری کیوں سمجھا گیا؟ کیونکہ وہ اکٹھے لائبریری جاتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ فون پر گھنٹوں بات کرتے تھے۔ معاشرے نے فوراً لیزبیئن کا ٹیگ لگا دیا۔ حقیقت؟ وہ صرف ایک دوسرے کو motivational quotes سناتی تھیں۔ 

کیا کیرئیر کی خواہش جنسیت کی علامت ہے؟

کراچی کی ایک لڑکی زینب نے جب مکینیکل انجینئرنگ کو چُنا، تو اس کے چچا نے کہا: یہ تو لڑکوں کا کام ہے، تمہیں شوق ہے تو گھر بیٹھ کر سلائی کرو۔ زینب کی جرات کو اس کے جنسی رجحان سے جوڑنا… کیا یہ معاشرے کا وہ میٹھا زہر نہیں جو ہر آزاد خیال لڑکی کو پلایا جاتا ہے؟ 

کیا ہم لفظوں کے جال میں اُلجھ گئے ہیں؟ 

لفظ لیزبیئن کو گالی کیوں بنا دیا گیا؟ جب کوئی لڑکی کہتی ہے میں شادی نہیں کرنا چاہتی تو فوراً کانوں میں سرگوشی: ضرور کسی لڑکی سے تعلق ہے۔ یہاں تک کہ ماں باپ بھی بیٹیوں کے کیرئیر کے خوابوں کو غیر فطری خواہشات سمجھنے لگتے ہیں۔ 

تمہاری ساکھ کا مسئلہ ہے۔ 

جب فیصل آباد کی ایک لڑکی نے سوشل میڈیا پر لکھا: میں مردوں کی دوستی پر یقین نہیں رکھتی، تو اسے خود کو پْرکھنے والی کہا گیا۔ جبکہ جس لڑکی نے مردوں کے ساتھ سلفی شیئر کی، اسے بازار کی لڑکی۔ معاشرہ ہر صورت میں عورت کو بے نقاب کرنے پر تُلا ہے۔ 

تمہارا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ 

گھر والے کہتے ہیں: لوگ تمہاری شادی نہیں کریں گے۔ مگر کیا شادی ہی عورت کی کامیابی کا پیمانہ ہے؟ جواب وہی ہے جو ہماری سانسوں میں گُھسا ہوا ہے: ہاں۔

کیا یہ سب صرف پاکستان میں ہوتا ہے؟ 

نہیں۔ مگر پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عورت کی آزادی کو ایک مکمل پیکیج سمجھا جاتا ہے۔ اگر تم نے ایک آزادی چُنی، تو باقی سب بھی تم پر تھوپ دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر: 
اگر تم نے ہیئر کٹ چُنا، تو تم لازمی مردانہ صلاحیتوں کی حامل ہو۔ 
اگر تم نے مرد دوست بنا لیے، تو تم دونوں طرف جھکاؤ رکھتی ہو۔ 
اگر تم نے اکیلی رہنے کا فیصلہ کیا، تو تمہاری جنسیت سوالیہ نشان ہے۔ 

آخر کیوں ؟ 

کیونکہ ہم نے عورت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ڈکشنری بنا رکھی ہے۔ ہر لفظ، ہر عمل، ہر سوچ کا مطلب پہلے سے طے ہے۔ اگر وہ اس ڈکشنری سے باہر نکلتی ہے، تو ہم اسے نیا لیبل دے کر اپنی بے چینی کو تسکین دیتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے: 
لفظوں کے یہ لیبلز کبھی بھی کسی کے وجود کو ڈیفائن نہیں کر سکتے۔ یہ صرف ہماری محدود سوچ کا آئینہ ہیں۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.