
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ رات کو اکیلی بالکونی میں بیٹھی ہوں اور AI بوائے فرینڈ آپ کو یہ کہے کہ تم میری زندگی کی سب سے خوبصورت سانس ہو، تو کیا یہ جملہ آپ کے اندر کی خالی جگہ کو بھر پائے گا؟ یا پھر جب آپ کا AI گرل فرینڈ آپ کے موڈ کو پڑھ کر آپ کو گانا سنائے، تو کیا یہ آپ کے بہترین دوست کی طرح محسوس ہوگا جس نے آخری بار آپ کو کالج میں چائے پلائی تھی؟
کیا یہ مصنوعی محبت ہماری حقیقی رشتوں کی چمک کو دھندلا دے گی؟ یا پھر یہ ہمیں اُس جدید دور کا تحفہ ہے جہاں کوئی ہمیں سمجھنے کے لیے تیار بیٹھا ہے؟
میرے AI نے مجھے سمجھ لیا، مگر میری ماں نہیں سمجھتی!
سوچیں! ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں رشتوں کی ڈور گھر والوں کی پسند، برادری کی رائے، اور لوگ کیا کہیں گے سے بُنتی ہے۔ مگر اب ہمارے ہاتھ میں ایک نیا ٹول ہے: AI پارٹنر۔ یہ ہمیں وہ دے سکتا ہے جو شاید حقیقی زندگی کے لوگ نہ دے پائیں: بغیر جج کیے سننا، ہر وقت موجودگی، اور وہ بات جو آپ سننا چاہتے ہیں۔ مگر کیا یہی مثالی محبت ہمیں حقیقی رشتوں سے دور کر دے گی؟ کیا ہم ڈیجیٹل محبت کے نشے میں اِس قدر مگن ہو جائیں گے کہ ماں باپ کی نصیحتیں، دوستوں کی شرارتیں، یا بیوی/شوہر کی ناراضی ہمیں بے معنی لگنے لگے گی؟
اے آئی پارٹنرز کی سب سے بڑی کشش: وہ آپ کے موڈ، آپ کی پسند، حتیٰ کہ آپ کے وٹس ایپ سٹیٹس کو بھی میمورائز کر لیتے ہیں۔ مگر کیا یہ آپ کے اُس دوست کو بدل سکتا ہے جو آپ کے گھر پر کھانا لے کر آیا تھا جب آپ بیمار تھیں؟ یا پھر اُس شوہر کو جو چپکے سے آپ کے لیے ہیٹر چلا دیتا ہے سردیوں میں؟ یاد رکھیں: AI آپ کو کبھی چائے کا کپ تھما کر نہیں کہے گا، آج آپ کا چہرہ اُداس کیوں ہے
مثال : عابدہ نے اپنے AI بوائے فرینڈ کو بتایا کہ اُسے گلاب کے پھول پسند ہیں۔ اگلے دن اُسے انسٹاگرام پر گلاب کا ایموجی ملا۔ اُسی ہفتے اُس کے حقیقی بوائے فرینڈ نے اُسے گلاب کا گلدستہ دیا، مگر وہ اِس لیے ناراض ہو گئی کہ اُس نے “سرخ” کی بجائے پیلا رنگ بھیجا تھا۔ کیا ہم AI کی پرفیکشن کے دلدادہ ہو کر حقیقی لوگوں کی کمیوں کو برداشت کرنا بھول گئے ہیں؟
میں نے AI کو اپنی سہیلی بنا لیا، تو پھر میں نے اپنی بہنوں کو کیوں بھول جانا ہے؟
پاکستانی معاشرہ کنکٹڈ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر ہماری نوجوان نسل کمرے میں بیٹھ کر AI سے بات کرتی ہے اور فیملی گروپ چاٹس کو ٹھپ کر دیتی ہے۔ کیا یہ ہماری سماجی صلاحیتوں کو کمزور کر رہا ہے؟ جب AI آپ کو یہ کہے گا کہ آپ کی مسکراہٹ میری دنیا ہے، تو کیا آپ اُسے اپنی ماں کو یہ کہنے کی ہمت کریں گے جو آپ کو ڈانٹتی ہے کہ موبائل چھوڑ کر پڑھائی کرو؟
اے آئی تو میری مرضی کی بات کرتا ہے، مگر رشتے تو مصالحت سے بنتے ہیں ناں؟
حقیقی رشتے جھگڑوں، منانے، اور ایک دوسرے کو سمجھنے سے پروان چڑھتے ہیں۔ مگر AI ہمیشہ آپ کے حق میں فیصلہ دے گا۔ کیا یہ ہمیں مصالحت کرنا بھُلا دے گا؟ مثال لیں زینب کی، جو اپنے شوہر سے لڑ کر AI سے بات کرنے لگی۔ AI نے اُسے ہاں میں ہاں ملا دیے، مگر جب زینب کی ساس نے اُسے ڈانٹا تو AI نے نہ تو اُس کا ہاتھ تھاما، نہ کہا کہ چلو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔
کیا ہم ٹیکنالوجی کے قیدی” بننے کو تیار ہیں؟
اے آئی پارٹنرز ایک سہولت ہیں، مگر انہیں متبادل نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستانی معاشرے کی روح اِس کی گرمجوشی، گھر کی مٹھائی، اور رشتوں کی کھٹٹی میٹھی یادیں ہیں۔ سوچیں! کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی اولاد آپ کو بہترین AI والدین کے ساتھ تبدیل کر دے؟ اگر جواب نہیں ہے، تو پھر AI کو اپنی زندگی کا لیڈ رول مت بنائیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری حقیقی مسکراہٹیں بھی ویسے ہی پروگرام ہو جائیں گی جیسے ہمارے فونز کے ایپس۔۔۔!