
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ لائبریری کی خاموشی میں کوئی نگاہ آپ کے صفحات اُلٹتی کتاب سے زیادہ آپ کے چہرے کو پڑھ رہی ہے؟
کیا کلاس روم کی کھڑکی سے باہر نظر آنے والا کوئی چہرہ آپ کے سبق سے زیادہ دلچسپ لگتا ہے؟
یا پھر یونیورسٹی کینٹین میں چائے کے کپ کے ساتھ بیٹھے کسی کے ساتھ ایک نظر کا تبادلہ، آپ کے دن کی سب سے یادگار بات بن جاتا ہے؟
کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی آپ کی زندگی کا سب سے خوبصورت تجربہ بن سکتی ہیں، یا پھر کسی الجھن کا آغاز؟
کیمپس کی رومانوی فضا جہاں دلوں کو جگانے والی ہے، وہیں یہ نوجوانوں کو ایک ایسے جنگل میں دھکیل دیتی ہے جہاں جذبات کے پھول بھی ہیں اور خاردار راستے بھی۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں رشتوں کی باضابطگی کو فوقیت دی جاتی ہے، وہاں کیمپس کی چپکے سے جنم لینے والی محبتیں کبھی اُٹھتے ہنستے بادلوں کی طرح ہوتی ہیں، تو کبھی بارش بن کر زندگی بھر کے نشان چھوڑ جاتی ہیں۔
فائدے: جب محبت کلاس سے زیادہ سکھاتی ہے
کیمپس کی محبت صرف دل کی دھڑکن نہیں، بلکہ کچھ ایسے سبق دیتی ہے جو لیکچرز میں کبھی نہیں ملتے۔ مثال کے طور پر، وہ لڑکا جو آپ کو فائنل پراجیکٹ میں مدد کرتا ہے، دراصل آپ کو یہ سکھا رہا ہوتا ہے کہ ٹیم ورک صرف نتیجے کے لیے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ یا وہ لڑکی جو آپ کے ساتھ رات گئے تک لائبریری میں بیٹھ کر نوٹس شیئر کرتی ہے، وہ دراصل آپ کو وقت کی قیمت سمجھا رہی ہوتی ہے۔ یہ تعلقات اکثر نوجوانوں کو خودشناسی کا موقع دیتے ہیں، جیسے کوئی آپ کو آئینہ دکھا دے کہ دیکھو، تمہاری شخصیت کس طرح کسی اور کے ساتھ مل کر نکھرتی ہے۔
حیرت انگیز حقیقت:
کیمپس کے 68 فیصد طلباء نے مانا کہ انہوں نے اپنے پارٹنر سے سب سے اہم سبق خود کو قبول کرنا سیکھا، نہ کہ کوئی اکیڈمک مضمون!
نقصانات: جب ٹائم ٹیبل دل کے ہاتھوں تباہ ہو
لیکن یہی رومانوی تعلقات کبھی کیمپس کی چار دیواری کو ایک جیل بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ لڑکی جو ہر لیکچر کے بعد اپنے بوائے فرینڈ کے فون کا انتظار کرتی ہے، دراصل اپنی کلاس کی سب سے اہم پریزنٹیشن کو مس کر چکی ہوتی ہے۔ یا وہ لڑکا جو دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ہنسنے کی بجائے، محبوب کو منانے کے لیے کیمپس کے کونوں میں گھومتا رہتا ہے، یہ سب وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیت کو ایک طرفہ بنا دیتا ہے۔ پھر وہ دن آتا ہے جب بریک اپ ہوتا ہے، اور لگتا ہے جیسے کیمپس کی ہر عمارت آپ کو یاد دلاتی ہو کہ تمہارا دل یہاں ٹوٹا تھا۔
پاکستانی معاشرہ: رشتوں کی دوغلی چھتری
ہمارے ہاں کیمپس کی محبت کو اکثر شوقیہ سمجھا جاتا ہے۔ والدین کہتے ہیں پہلے ڈگری لو، پیار بعد میں بھی ہو جائے گا۔ مگر دل کب کسی ڈگری کا منتظر رہتا ہے؟ یہی وہ کشمکش ہے جو نوجوانوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، وہ جوڑا جو کیمپس میں چھپ چھپ کر ملتا ہے، اُس کا ہر لمحہ خوفزدہ ہوتا ہے کہ کہیں کوئی رشتہ دار نظر نہ آ جائے۔ کیا یہی وہ محبت ہے جس کے لیے ہم نے اتنی کتابیں پڑھی تھیں؟
پاکستانی کیمپس کی محبت اکثر اُس کہانی کی طرح ہوتی ہے جو کتاب کے صفحات کے درمیان چھپی رہ جاتی ہے، سب جانتے ہیں، مگر کوئی اُسے آواز نہیں دیتا۔
تو کیا کریں؟
اگر آپ کیمپس کے جذباتی جنگل میں کھو چکے ہیں، تو اپنے آپ سے پوچھیں:
کیا یہ تعلق میری ترقی کی راہ میں دیوار ہے یا سیڑھی؟
کیا میں اس کے بغیر بھی اپنی پہچان رکھتا ہوں؟
کیا یہ محبت مجھے معاشرے کی نظر میں گناہ بنا رہی ہے، یا ایک بہتر انسان؟
جوابات کے بغیر چلنے والی ہر محبت، کیمپس کی اُس گھاس کی طرح ہے جو راستہ تو سبز دکھاتی ہے، مگر پیروں میں کانٹے چبھوتی ہے۔