
کبھی سوچا ہے کہ وہ لوگ جن کے ساتھ آپ نے کل تک گھٹیا کیفے میں چائے کی چسکیاں لی تھیں، آج اُن کا نام فون کی سکرین پر دیکھتے ہی انگلی رک جاتی ہے؟
کیا وہی دوست جو آپ کے لیے راتوں رات پروجیکٹ تیار کرتے تھے، آج ایک سادے ہائے کے لیے بھی مصروف ہیں؟
کیا ہماری دوستیاں صرف کلاس رومز تک ہی محدود تھیں؟
گریجویشن کے بعد دوستوں سے تعلق ٹوٹنا کوئی نیا مسئلہ نہیں، لیکن پاکستانی معاشرے میں یہ کہانی کچھ زیادہ ہی ڈراما سیریل بن جاتی ہے۔ یہاں نہ صرف فاصلوں، مصروفیات، یا نئے رشتوں کی وجہ سے تعلقات دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی تو ہم خود اپنے ہاتھوں اِن رشتوں کو بےفونٹ موبائل کی طرح بھول جاتے ہیں۔
ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے… مگر کیوں؟
سوچیں اُس دوست کا خیال آتا ہے جو آپ کے ساتھ یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پانی پوری کھاتا تھا، مگر اب اُسے کال کرنے پر آپ کو لگتا ہے جیسے آپ اُس سے قرض مانگ رہے ہوں۔ یہ احساس تنہائی نہیں، بلکہ وقت کے ساتھ رشتوں کی پرانی فائلز کو اپڈیٹ نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
پاکستانی معاشرے میں تو یہ اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے:
آپ کا دوست لاہور میں نوکری کرتا ہے، آپ کراچی میں، اور آپ دونوں کے درمیان بس شادیوں کے کارڈ ہی رابطے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
وہ گروپ چیٹ جس میں کبھی گھنٹوں میمز شیئر ہوتی تھیں، اب صرف سلامتی پیغامات، عید مبارکباد اور نمبر شیئر کریں والے میسجز سے بھرا ہوتا ہے۔
دوستی کا رشتہ: کچھ ٹوٹتا نہیں، بس ہم بدل جاتے ہیں
یاد رکھیں دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی، بس ہماری ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جیسے پاکستان میں گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اسکول کا پہلا دن ہوتا تھا، ویسے ہی گریجویشن کے بعد زندگی کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔ مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم نیا باب لکھتے ہوئے پرانی کہانیوں کو کتاب کے آخری صفحات میں دبا دیتے ہیں۔
حل؟ ہاں، لیکن تھوڑا مشکل…
رابطے کا ایک بہانہ بھی کافی ہے۔ کبھی اُسے ویڈیو کال پر یہ کہہ کر بلائیں کہ یار، تمہیں وہ کیفے والا چکن رول یاد ہے؟ میں نے بنایا ہے، ذائقہ بالکل وہی آیا ہے۔۔۔
وقت کا تحفہ:
ہفتے میں ایک دن ایسا مقرر کریں جب آپ سب ورچوئل چائے پیں گے۔ جی ہاں، یہ عجیب لگتا ہے، مگر پاکستان میں تو آن لائن ملاقاتیں اب کوئی نیا تصور نہیں!
پرانی یادیں تازہ کریں:
اسے اُس دن کی کوئی تصویر بھیجیں جب آپ دونوں نے امتحان میں چیٹنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
ہم سب ایک جیسے ہیں!
آپ کو لگتا ہو گا کہ صرف آپ ہی اپنے دوستوں سے دور ہوئے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں کوئی نہ کوئی آج بھی اپنے پرانے دوست کی واٹس ایپ سٹیٹس دیکھ کر سوچ رہا ہوتا ہے: کیا میں میسج کروں؟ پتا نہیں وہ میری بات بھول تو نہیں گیا؟
دوستی کا رشتہ کسی نازک پھول کی مانند ہے…
اِسے ہر روز پانی دیں، ورنہ یہ مرجھا جاتا ہے۔ گریجویشن کے بعد کی زندگی میں تو یہ پھول اور بھی نازک ہو جاتا ہے، کیونکہ اب نہ وہ کلاس رومز ہیں، نہ وہ بےفکر لمحے۔ مگر یاد رکھیں، جو رشتے آپ کی ہنسی، آپ کے غصے، اور آپ کی خاموشیوں کو سمجھتے ہیں، وہ کبھی پرانی یادیں نہیں بنتے… بس ہمیں اُنہیں نیا وقت دینا ہوتا ہے۔