
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب آپ اپنے خوابوں کی طرف دوڑتی ہیں، تو لوگ آپ کے قدموں کی آواز کو لالچ کا نام کیوں دیتے ہیں؟
کیا آپ کو وہ لمحے یاد ہیں جب آپ نے اپنی محنت سے خریدے ہوئے نئے کپڑے پہنے، تو کسی نے کہا: ارے یہ تو گولڈ ڈیگر بن گئی!؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کی کامیابی کو آپ کے خاندان کی دولت یا کسی مرد کی مدد سے جوڑ دیا جاتا ہے؟
کیا ایک لڑکی کا امیر ہونا، خواہ وہ ذہن ہو یا بینک بیلنس، ہمیشہ اس کی “قیمت” کا پیمانہ بن جاتا ہے؟
پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو جب بھی وہ اپنی صلاحیتوں، محنت، یا حتیٰ کہ شخصی انتخاب سے آگے بڑھتی ہیں، انہیں گولڈ ڈیگر کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ لیبل کوئی جرم نہیں، بلکہ معاشرے کا وہ آئینہ ہے جو عورت کی کامیابی کو اس کی منافع بخش شادی سے ہی جوڑنا چاہتا ہے۔
تمہاری شادی ہی تمہاری اصل ڈگری ہے:
مثال: زینب نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا، لیکن خاندان والوں کو اس کی ڈگری سے زیادہ اس کے رنگ روپ پر فخر ہے۔ جب اس نے ایک اچھی نوکری کے لیے شہر بدلا، تو چچا جان نے کہا: بیٹا، یہ سب کرنا ہے تو کسی امیر لڑکے سے شادی کرلیتی، اتنی محنت کی ضرورت نہ تھی۔
سوال: کیا لڑکی کی محنت کا مقصد صرف شادی کی مارکیٹ ویلیو بڑھانا ہے؟
تمہاری آزادی تمہاری بے حیائی ہے:
مثال: سارہ نے اپنی پہلی کمائی سے ایک موٹر سائیکل خریدی تو محلے والوں نے اسے ڈھونڈنے والی کہنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنے بھائی کا فیس جمع کراتی تھی۔
حیرت انگیز حقیقت: لڑکی کا پیسہ خرچ کرنا معاشرے کو تب ہی قبول ہے جب وہ دوسروں پر خرچ کرے، اپنے پر نہیں۔
تمہاری خاموشی تمہاری خوبصورتی ہے:
جب مہک نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شادی سے انکار کیا کیونکہ وہ اس کے کریئر کو سپورٹ نہیں کرتا تھا، تو رشتہ داروں نے کہا: ایسے لڑکے کو ٹھوکر مارنا گنوارپن ہے۔ تمہیں تو بس گھر بیٹھنا تھا! ہم لڑکیوں سے کہتے ہیں کہ تمہاری آواز اونچی مت ہو، پر جب تم خاموش ہوجاؤ تو تمہیں بے زبان کہہ دیا جاتا ہے۔
کیوں؟
ہمارا معاشرہ لڑکیوں کو پراپرٹی سمجھتا ہے جس کی ویلیو اس کے مالک (خاندان، شوہر) سے طے ہوتی ہے۔ اگر لڑکی خود کوئی قیمت طے کرلے، تو اسے باغی یا گولڈ ڈیگر بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ڈر کہ لڑکیاں اگر آزاد ہوگئیں تو معاشرہ کیسے چلے گا؟ دراصل معاشرے کے اُس گھٹن زدہ تصور کا عکس ہے جو عورت کو صرف ایک پالتو جانور سمجھتا ہے۔
کچھ راستے… کچھ امیدیں:
اپنی کہانی خود لکھو: جیسے شازیہ جو کراچی کی گلیوں میں ایک سپورٹس اکیڈمی چلاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں:
یہ سب پیسے کہاں سے لائی؟ وہ مسکراتی ہے: میرے خوابوں نے مجھے سود دیا ہے۔
لفظوں کو دوبارہ متعارف کرواؤ: جب کوئی آپ کو گولڈ ڈیگر کہے، تو جواب دیں: جی ہاں، میں اپنی محنت سے سونے کے زیور بناتی ہوں۔ آپ کو تعریف کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔
گولڈ ڈیگر کا لیبل دراصل معاشرے کا وہ کپ ہے جو وہ اُن لڑکیوں کو دیتا ہے جو اس کے بناے ہوئے کھیل کے اصول توڑتی ہیں۔ یاد رکھیں: تمہاری قدر کا پیمانہ تمہارے خواب ہیں، نہ کہ تمہاری شادی کی مہر۔