
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کے پارٹنر کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں رہی جو شادی کے دن تھی؟
کیا وہ فون پر بات کرتے ہوئے اچانک کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں، جیسے کوئی راز چھپا رہے ہوں؟
کیا آپ نے کبھی گھڑیوں اُس کے “لیٹ نائٹ شفٹس” پر سوچا ہے کہ یہ شفٹیں واقعی ہوتی بھی ہیں یا محض ایک بہانہ ہے؟
اور سب سے بڑھ کر کیا آپ کے اندر کا انسان بار بار پوچھتا ہے کہ “میں نے کیا کھویا ہے جو اس نے مجھے یہ صلہ دیا؟”
جب رشتوں کے تار بکھر جائیں
پاکستانی معاشرے میں “بیوہا” کا لیبل لگنے سے پہلے ہی عورت خود کو شکست خوردہ سمجھنے لگتی ہے، اور مرد “ناکام شوہر” بننے کے ڈر سے خاموشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ بے وفائی صرف ایک لمحہ ہے، آپ کی پوری زندگی نہیں۔
راز نمبر 1: وہ میسج، وہ کال، اور وہ… آپ کی غلطی نہیں!
سن لیجیے اگر کوئی آپ کو چھوڑ کر چلا گیا، تو یہ آپ کے “کم ہونے” کی نہیں، اُس کے “پورے نہ ہونے” کی نشانی ہے۔ مثال لیجیے شفاہ نے جب اپنے شوہر کے فون پر “بہن” کے نام سے آنے والے میسجز دیکھے، تو اُس نے خود کو کوسنا شروع کر دیا کہ “شاید میں اچھی بیوی نہیں۔” حقیقت کیا تھی؟ دراصل وہ “بہن” شوہر کی کالج کی محبوبہ تھی۔ غلطی شفاہ کی نہیں، اُس مرد کی تھی جو اپنے وعدوں کو پورا نہ کر سکا۔
راز نمبر 2: خاموشی ہمیشہ علاج نہیں ہوتی!
ہمارے ہاں “لوگ کیا کہیں گے” کے خوف میں ہم زہر کو اندر ہی پی جاتے ہیں۔ مگر جیسے لاہور کی گلیوں میں کھڑی کوئی پرانی ہیولے کار دھیرے دھیرے سڑنے لگتی ہے، ویسے ہی خاموش غصہ آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ ڈاکٹر عمر کے کلینک میں 70% مریض وہ خواتین ہیں جو پارٹنر کی بے وفائی کو چُھپا کر ڈپریشن کا شکار ہو گئیں۔
راز نمبر 3: کبھی کبھی محبت سے زیادہ… عزت ضروری ہوتی ہے!
ایک واقعہ سنیں کہ فاروق نے اپنی بیوی کو دوست کے ساتھ دیکھا تو اُس نے شور مچا دیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ بیوی نے کہا “تم نے مجھے بے عزت کیا، میں چلی جاتی ہوں۔” یاد رکھیں کہ دوسروں کے سامنے اپنی عزت خاک میں مت ملائیں۔ اگر سچائی سامنے لانی ہو تو خاندان کے بڑوں کو ساتھ بٹھا کر بات کریں۔ پاکستانی معاشرے میں “جرگہ” صرف قبائلی علاقوں میں نہیں، گھروں میں بھی چلتا ہے!
“زندگی کا سب سے بڑا انتقام… خوش رہنا ہے!”
بے وفائی کا زخم کبھی مکمل نہیں بھرتا، مگر آپ اُسے اپنی طاقت بنا سکتے ہیں۔ جیسے کراچی کی وہ خاتون جو شوہر کے چھوڑنے کے بعد اکیلے ہی اپنے بچوں کو پال کر ڈاکٹر بنا گئی یا وہ نوجوان جو بیوی کے دھوکے کے بعد خود کو “مینٹل ہیلتھ ایڈووکیٹ” بنا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو آپ کو توڑنے آیا تھا، اگر آپ چاہیں تو اُسے اپنی کہانی کا “ویلن” بنا کر ہیرو بھی بن سکتے ہیں