
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کی زندگی کے اہم فیصلے کسی اور کے خوابوں کا سایہ ہیں؟ جیسے میڈیکل میں داخلہ لینا صرف اس لیے کہ “خاندان میں ڈاکٹر کی کمی تھی”، یا شادی کے بعد نوکری چھوڑ دینا کیونکہ “بیٹیوں کا گھر سنبھالنا ہی اصل کمال ہے”؟
کیا آپ کے دل کی آواز اکثر دبائی گئی ہے جیسے ریڈیو کا وہ پرانا نغمہ جو شور میں گم ہو جاتا ہے؟
اور سب سے اہم… کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کسی کی “خوشی” کے لیے اپنی خواہش مرجاتے ہیں، تو دراصل آپ اپنی زندگی کا سب سے بڑا قرض چُکا رہے ہوتے ہیں، ایک ایسا قرض جو کبھی اترتا ہی نہیں؟
فیصلوں کی جنگ کا نقشہ
زندگی کے ہر موڑ پر ہماری ذات اور معاشرے کی توقعات کی جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ جنگ اکثر خاموش ہوتی ہے جیسے کسی کی آنکھوں میں چمک دمک کر بجھ جاتی ہو یا کسی کے خوابوں کے پرندے پنجرے میں بند ہو جائیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ ہر فیصلہ ایک “خود شناسی” کا امتحان ہے۔
وہ چابی جو آپ کے ہاتھ میں ہے
سنئیے! زندگی کے فیصلے کرنے کا راز صرف ایک جملے میں ہے کہ”اپنے اندر کے بچے کو بڑوں کی دنیا سے بچائیں۔” جی ہاں! وہ بچہ جو کبھی ستارے چھونے کا خواب دیکھتا تھا، جو کہانیاں لکھنا چاہتا تھا، جو سائیکل چلاتے ہوئے ہوا سے باتیں کرتا تھا… اُسے زندہ رکھیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔
جھلکیاں آپ کے آئینے سے
– کیا آپ کو وہ دوست یاد ہے جس نے انجینئرنگ چھوڑ کر فوٹوگرافی شروع کی تھی؟ لوگ کہتے تھے “بے وقوف ہے”، مگر اب اُس کی شادی کی فوٹوز ہر دوسرے invitation card پر نظر آتی ہیں۔
– وہ خالہ جو “گھر بیٹھی بیٹی” کو کوستی تھیں، آج اُسی کی کروڑوں کی سیرم کی دکان پر اپنی جھُریاں چھپانے آتی ہیں۔
– کیا آپ جانتے ہیں؟ لاہور کے کسی کالج میں پڑھانے والی وہ لڑکی جس کے والد نے اُسے پڑھایا تھا صرف اس لیے کہ “بیٹیوں کو تعلیم دینا سنت ہے”، آج اُسی لڑکی نے اپنے گاؤں میں لائبریری بنا کر “سنت” کا مفہوم بدل دیا ہے۔
وہ بات جو دل سے نکلے اور دماغ کو جکڑ لے
دیکھیں جب آپ دوسروں کے ڈر سے فیصلے کرتے ہیں، تو اپنے خوابوں کو قبرستان میں دفن کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ‘لوگ کیا کہیں گے’ سے زیادہ خطرناک چیز ‘میں کیا کہوں گا’ ہے کیونکہ فیصلہ وہ نہیں جو آپ کا موبائل فون خریدنے سے پہلے دس لوگوں سے پوچھیں، فیصلہ وہ ہے جو آپ رات کو چپکے سے آنسوؤں میں ڈوب کر سوچیں۔
وہ قدم جو آج اٹھے
کل صبح اٹھ کر ایک کاغذ لیں اور لکھیں کہ “میں اگر صرف ایک سال جی سکتی، تو کونسے تین فیصلے کرتی؟” جواب میں جو لفظ لرزتے ہوئے لکھیں گے، وہی آپ کی زندگی کا اصل رستہ ہے۔ باقی سب تو… بس وہ راستے ہیں جو ہمیں دکھا دیے جاتے ہیں۔
یاد رکھیں آپ کی زندگی کا سکرپٹ آپ کی مرضی سے لکھیں۔ معاشرہ تو ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھ کر “ٹائٹل” دیکھنے والا ہے، فلم آپ کی ہے!