
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں وقت سب کچھ ٹھیک کر دیتا ہے، تو یہ “وقت” آخر ہوتا کون ہے؟
کیا وہ کوئی جادوگر ہے جو راتوں رات آپ کے دل کے ٹکڑے جوڑ دے گا؟
ہا پھر وہ دن جب آپ کا فون پر کال نہیں آتی، آپ کیسے سانس لیتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ لاہور کی گلیوں میں چلتے ہوئے ہر دوسری دکان، ہر چائے کی کٹوری آپ کو اُس کی یاد دِلا رہی ہے؟
اور جب رشتہ دار کہتے ہیں ابھی تو تم جوان ہو، کوئی نئی مل جائے گی، تو آپ کے اندر کون سا زخم ہنستا ہے؟
بریک اپ صرف ایک رشتے کا خاتمہ نہیں یہ ایک پورا “آپ” ہے جو ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہاں راز یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے شیشے سے روشنی زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔
راز نمبر 1: “آپ کا درد کسی اور کا ڈراما نہیں، اسے سوشل میڈیا پر لانے کی ضرورت نہیں”
سچ پوچھو تو ہم سب نے وہ پوسٹس دیکھی ہیں، سیاہ اور سفید فیلٹر والی تصویریں، غمگین شاعری، اور کبھی کبھار بے ترتیب گانے کے بول۔ لیکن یاد رکھیں جب آپ ساری دنیا کو اپنا درد بتاتے ہیں، تو کچھ لوگ صرف “ٹیپ” کرتے ہیں، “سلائیڈ” کرتے ہیں۔ آپ کا غم آپ کی ڈائری بنے، کسی کی چٹخارے دار کہانی نہیں۔
مثال کے طور پر کراچی کی ایمشا نے جب اپنے ایکس کو بلاک کیا، تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ چائے پینا شروع کر دی۔ ماں کی چائے میں وہ سکون تھا جو 100 فالوورز والے ری ایکشنز میں نہیں ملتا۔
راز نمبر 2: “آپ کا جسم اور دماغ ایک ٹیم ہیں، کسی کو تنہا مت چھوڑیں”
بریک اپ کے بعد کچھ لوگ جِم جا کر پریشان ہوتے ہیں، کچھ سونے سے دن گزارتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب آپ کا دماغ کہتا ہے “میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا”، تو آپ کا جسم کہتا ہے “چلو چکن کڑاہی کھاتے ہیں”۔ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
حیران کن حقیقت:
اسلام آباد کے علی نے محسوس کیا کہ وہ جتنا روٹی کباب کھاتا ہے، اُتنا ہی اُس کا دل ہلکا ہوتا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ کباب کی دکان والے نے بھی بریک اپ کے بعد یہی فارمولا اپنایا تھا۔
راز نمبر 3: “لوگوں کے جملوں کو اپنے زخموں پر نمک مت بننے دیں”
پاکستانی معاشرہ ہمدردی سے زیادہ مشوروں کا شوقین ہے۔ کوئی کہے گا “تمہاری غلطی تھی”، کوئی کہے گا “اُس کی قسمت خراب تھی”۔ یاد رکھیں کہ آپ کا رشتہ کسی کی چائے کی پیالی نہیں جس پر ہر کوئی تبصرہ کرے۔ جب کوئی آپ سے پوچھے “تم نے کیا کیا تھا؟”، جواب دیں “میں نے اپنی کہانی لکھی تھی، اب نئی فصل اُگا رہا ہوں”۔
راز نمبر 4: “ماضی کو ‘واٹس ایپ سٹیٹس’ نہ بنائیں، آرکائیو کر دیں”
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ اُس کے پرانے میسجز دیکھتے ہیں، تو آپ کا دماغ ایک ایسی فلم چلاتا ہے جس کا اختتام آپ کو پہلے سے پتا ہے۔ اسے “ڈلیٹ” کرنا ہتھیار نہیں، علاج ہے۔
حقیقی زندگی کی مثال
فیصل آباد کی سارہ نے اپنے فون کی ہوم اسکرین بدل دی، اب وہاں پر ایک کتا ہے جو ہنس رہا ہے۔ کتے نے اُسے سکھایا کہ بغیر کسی وجہ کے خوش رہنا کیسے ہوتا ہے۔
بریک اپ کے بعد کی زندگی ایک نئی بس کی مانند ہے، کچھ لوگ اتر جاتے ہیں، کچھ نئے چڑھتے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ “وہ کیوں گیا؟”، بلکہ یہ ہے کہ “اب میں کس طرح سے چمکوں گا؟”۔ یاد رکھیں پاکستانی گلیوں میں ہر موڑ پر نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔ آپ کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ صرف ایک “ٹیزر” تھا۔