
کبھی آپ نے سوچا کہ وہ بچہ جو ہر وقت ہنستا کھیلتا تھا، اب خاموش کیوں ہوگیا ہے؟
وہ لڑکی جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجایا کرتی تھی، اب ہر وقت الجھن میں کیوں رہتی ہے؟
وہ بیٹا جو بچپن میں والدین کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا تھا، اب ان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے کمرے میں بند کیوں رہتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچے بگڑ نہیں رہے، بلکہ وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ والدین محبت تو بے حد کرتے ہوں، لیکن بچوں کے لیے مشکلات بھی وہی کھڑی کر رہے ہوں؟
بات صرف لاڈ پیار کی نہیں، رویے کی بھی ہے
زیادہ تر والدین یہ سوچتے ہیں کہ ان کی محبت اور دعائیں بچوں کے لیے کافی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت کے ساتھ رویہ بھی اہم ہوتا ہے۔ اکثر والدین اپنی محبت کے اظہار میں اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ ان کے الفاظ اور عمل بچوں کے دل پر گہرے زخم چھوڑ جاتے ہیں۔
حد سے زیادہ کنٹرول، محبت یا قید؟
بچے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہر چیز کا سامنا کرتے ہیں، لیکن کچھ گھروں میں بچے خود کو قیدی محسوس کرتے ہیں۔ “یہ مت کرو، وہ مت کرو، وہاں مت جاؤ، ان سے مت ملو” آخر کہاں جائے یہ بچہ؟ اسے فیصلے کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا، اور جب وقت آتا ہے تو وہ ایک چھوٹے سے فیصلے میں بھی الجھ کر رہ جاتا ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں: “ہمارے بچے خود مختار نہیں!
بچوں کا مذاق اُڑانا۔ چھوٹے دل، بڑے زخم
کبھی کبھی والدین ہنسی مذاق میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو بچوں کے دل میں گہرے زخم چھوڑ جاتی ہے۔ “تم تو کچھ بھی نہیں کرسکتے!”، “تمہارے دماغ میں عقل ہے بھی یا نہیں؟”، “بس کھانے کے علاوہ کچھ آتا بھی ہے؟” یہ جملے سن کر ہنسنے والے لوگ شاید بھول جائیں، لیکن سننے والا بچہ ہمیشہ کے لیے خود پر شک کرنا شروع کر دیتا ہے۔
دوسروں سے موازنہ، اعتماد کی جڑیں ہلا دینے والا رویہ
“دیکھو فلاں کا بیٹا کتنی اچھی نوکری پر لگ گیا، اور تم ہو کہ ابھی تک کچھ نہیں کر پائے!”، “تمہیں کچھ نہیں آتا، دیکھو تمہاری بہن کو سب کچھ آتا ہے!” یہ موازنہ بچے کے اندر احساسِ کمتری بھر دیتا ہے۔ وہ اپنی خوبیوں کو نہیں دیکھ پاتا، بس یہ سوچتا ہے کہ میں دوسروں سے کم تر ہوں۔ پھر یہی بچہ بڑا ہو کر یا تو حد سے زیادہ ضدی بن جاتا ہے، یا ہر وقت احساسِ محرومی میں جیتا ہے۔
محبت کے نام پر بچوں کو بگاڑ دینا
کچھ والدین بچوں کی ہر ضد پوری کر دیتے ہیں۔ ہر نئی خواہش، ہر نیا مطالبہ فوراً مان لیا جاتا ہے۔ پھر وہی بچے جب باہر کی دنیا میں جاتے ہیں اور حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، تو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو قصوروار سمجھتے ہیں، خود کو نہیں۔ والدین نے انہیں ہر چیز دی، لیکن صبر اور محنت کا درس نہیں دیا۔
غصہ اور سختی – احترام یا خوف؟
بعض والدین سمجھتے ہیں کہ سختی کے بغیر تربیت ممکن نہیں۔ “جب تک مار نہیں پڑے گی، عقل نہیں آئے گی”۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے ڈر کے مارے غلطیاں چھپانے لگتے ہیں، سچ بولنے سے کتراتے ہیں، اور جھوٹ کو سہارا بنا لیتے ہیں۔ وہ عزت نہیں، خوف کرتے ہیں۔ اور خوف زدہ بچے بڑے ہو کر یا تو بغاوت کرتے ہیں، یا بالکل دب جاتے ہیں۔
سوچیں، کہیں دیر نہ ہوجائے
بچوں کی پرورش میں سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ والدین اپنی نیت کو درست سمجھ کر اپنے عمل کو دیکھتے ہی نہیں۔ “ہم تو بچوں کی بہتری چاہتے ہیں”، لیکن کیا وہ واقعی بہتر ہو رہے ہیں؟ ہر والدین اپنے بچے سے محبت کرتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر والدین کی تربیت بھی درست ہو۔ بچوں کے مسائل اکثر ان کے گھر سے ہی شروع ہوتے ہیں، اور اگر وقت پر نہ سوچا جائے تو ان کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
کیا کریں؟
بچوں سے بات کریں، صرف نصیحت نہ کریں۔
ان کی بات سنیں، ان کے احساسات کو سمجھیں۔
ان کی عزت کریں تاکہ وہ اپنی عزت کرنا سیکھیں۔
محبت کریں، لیکن سمجھداری کے ساتھ۔
انہیں آزاد فیصلے کرنے دیں، لیکن راہنمائی بھی کریں۔
بچوں کی زندگی والدین کے رویے سے بنتی اور بگڑتی ہے۔ وہ مستقبل کا ایک آئینہ ہیں، جس میں آج کے فیصلے واضح نظر آئیں گے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ اس آئینے میں ایک پُراعتماد، خوش باش اور مضبوط شخصیت نظر آئے؟ یا ایک الجھا ہوا، خوفزدہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا انسان؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔