
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک بیٹی کو بڑے شوق سے سکول بھیجنے والے والدین اسی بیٹی کی نوکری کی بات پر کیوں ہچکچاتے ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ بہنوں کی اعلیٰ تعلیم پر فخر کرنے والے بھائی جب وہی بہن شادی کے بعد کسی مشکل میں ان سے مدد مانگتی ہے تو اسے “اب تمہارا گھر وہی ہے” کہہ کر خاموش کر دیتے ہیں؟ وہ ماں جو بیٹے کو اپنی کمائی سے پڑھا کر بڑا کرتی ہے، وہی ماں بہو کی نوکری کو خاندان کی عزت کے لیے خطرہ کیوں سمجھتی ہے؟
یہ سوسائٹی عورت کو پنکھ تو دیتی ہے، مگر پرواز سے پہلے اس کے پروں میں زنجیریں کیوں ڈال دیتی ہے؟
خودمختاری کا مطلب کیا ہے؟
عورت کی خودمختاری کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنی اقدار یا خاندان سے بغاوت کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکے، اور اپنی قابلیت کو عملی میدان میں لا سکے۔ مگر سچ کہیے، کیا ہم نے اسے یہ موقع دیا؟ اگر وہ کماتی ہے تو خاندان کا دباؤ، اگر وہ گھر سنبھالتی ہے تو معاشرتی طعنے۔ آخر عورت کرے تو کیا کرے؟
سوسائٹی کے تضادات
ہمارا معاشرہ عجیب مخمصے میں ہے۔ جب بیٹی چھوٹی ہوتی ہے، تو اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں، مگر جیسے ہی وہ خواب حقیقت کے قریب پہنچتے ہیں، تو اسے “گھر کی چار دیواری” کا درس دے دیا جاتا ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ عورت کو تعلیم دینی چاہیے، دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت جتنی کم بولے، اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ اگر لڑکی پڑھ لکھ کر کمائے تو “گھر برباد ہو جاتا ہے”، لیکن اگر جہیز کے لیے والدین مقروض ہو جائیں تو یہ “معاشرتی مجبوری” بن جاتی ہے؟
خودمختاری کا خوف کیوں؟
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ عورت خودمختار ہو، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مرد اسے خودمختار دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ معاشرہ مرد کو بچپن سے یہی سکھاتا ہے کہ وہی حاکم ہے، وہی فیصلے کرے گا۔ یہی سوچ اسے عورت کی خودمختاری سے خوفزدہ کرتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر عورت اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کچھ کر دکھائے، تو اس میں برائی کیا ہے؟ اگر عورت کے اپنے فیصلے اسے خوشحال بنا سکتے ہیں، تو اسے آزادی کیوں نہ دی جائے؟
حل کیا ہے؟
تربیت کا آغاز گھر سے ہونا چاہیے۔ بیٹوں کو یہ سکھایا جائے کہ عورت کی خودمختاری ان کے لیے خطرہ نہیں بلکہ ترقی کا ذریعہ ہے۔ تعلیم کو عملی زندگی سے جوڑا جائے۔ لڑکیوں کو صرف ڈگری لینے کے لیے نہیں، بلکہ خودمختاری کے لیے پڑھایا جائے۔ عورت کی معاشی خودمختاری کو قابلِ قبول بنایا جائے۔ اسے “شوہر کی کمائی پر گزارہ کرو” کے بجائے “اپنی محنت سے عزت کماؤ” کا درس دیا جائے۔
خاندان کو عورت کے فیصلوں میں شامل کیا جائے، مگر انہیں قابو پانے کا اختیار نہ دیا جائے۔ عورت کے فیصلے اس کی اپنی شخصیت کے مطابق ہونے چاہئیں، نہ کہ سوسائٹی کے دباؤ میں آ کر کیے گئے۔
آخر میں ایک سوال
کیا آپ واقعی چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی، بہن، بیوی یا ماں ایک ایسی زندگی گزارے جہاں وہ دوسروں کے فیصلوں کے تابع ہو؟ یا آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکے؟ اگر جواب دوسرا ہے، تو یاد رکھیے، تبدیلی صرف سوچ بدلنے سے آتی ہے، اور وہ سوچ آپ سے شروع ہوتی ہے۔