
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ شادی کے بعد آپ کی ذات “ہم” میں گم ہو گئی؟
کبھی سوچا ہے کہ وہ خوبصورت شادی کی تصویریں، جو سوشل میڈیا پر چمکتی ہیں، ان کے پیچھے کتنے “ڈیلیٹ کیے گئے اسٹیٹس” اور “مٹائے گئے آنسو” چھپے ہیں؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ سسرال اور ماں باپ کے درمیان توازن قائم کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا دو کناروں پر کھڑے ہاتھیوں کو ایک رسی سے باندھنا؟
اور کیا آپ نے کبھی اپنے ساتھی سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے: “تمہیں تو پتا ہی نہیں میری قربانیوں کا!” جبکہ آپ کے دل میں بھی یہی دہک رہا ہوتا ہے؟
شادی کی ڈوری… گانٹھیں بھی، الجھنیں بھی
شادی محض دو دلوں کا ملاپ نہیں، دو خاندانوں، دو سوچوں، اور کبھی کبھی دو “ورلڈ ویوز” کا ٹکراؤ بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ رشتہ اکثر ایک “فیملی پیکج” کی طرح آتا ہے جس میں محبت، ذمہ داری، روایات، اور سماج کے بے پناہ دباؤ کا ایک عجیب امتزاج ہوتا ہے۔
“تم میری فیملی کو کیوں نہیں سمجھتے؟” رشتوں کی جنگ
سوچیں وہ صبح جب آپ کی ساس نے چائے میں چینی کم ڈال دی اور آپ نے سمجھا یہ “ٹیسٹ” ہے۔ یا وہ لمحہ جب آپ کے والدین کو لگا کہ داماد ان کی عزت نہیں کرتا، حالانکہ وہ صبح شام “جناب” کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ پاکستانی شادی شدہ زندگی کی سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ہم “فیملی والوں” کو خوش رکھنے کی دوڑ میں اپنے ساتھی کو بھول جاتے ہیں۔ جیسے کہانی میں کہا گیا کہ “شادی کے بعد پہلا سال تو گھر والوں کو منانے میں گزر جاتا ہے، دوسرا سال اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونے میں، اور تیسرا سال… سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے کبھی شادی ہی نہ کی ہوتی۔”
ٹیک آوے:
اپنے رشتے کو “فیملی کا فری سٹائل ڈانس” نہ بننے دیں۔ کبھی کبھی صرف اپنے ساتھی کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ دیں کہ”ہم دونوں ہی درست ہیں۔”
لوگ کیا کہیں گے؟” ، سماج کا خوف
کیا آپ نے کبھی اپنی بیوی کو یہ کہتے سنا ہے: “میرے کزنز کی شادی میں تم نے ایسا سوٹ کیوں پہنا؟ لوگ کہہ رہے تھے تمہیں ہماری پرواہ نہیں!” یا پھر شوہر کا وہ جملہ کہ”تمہاری ماں ہر چیز میں ٹانگ کیوں اڑاتی ہیں؟ میرے دوستوں کے سامنے میری عزت نہیں رہتی!” پاکستانی معاشرے کا یہ “لوگ فیکٹر” شادی شدہ جوڑے کے لیے اکثر ایک غیر مرئی دشمن بن جاتا ہے۔ ہر فیصلہ، ہر جھگڑا، بلکہ ہمسائیں کے فون کرنے کا وقت تک بھی “لوگوں کی نظر” میں تولا جاتا ہے۔
حقیقت کی کھڑکی:
اگلی بار جب “لوگ” آپ کے گھر کی چاردیواری میں گھس کر بولنے لگیں، انہیں یاد دلائیں کہ”یہ گھر ہمارا ہے، آپ کا ویڈیو کال کا بٹن آف ہے۔”
“پیسے ہی پیسے!” — مالی معرکہ
شادی کے بعد جب تک “ہماری تنخواہ” اور “تمہارے خرچے” جیسے جملے نہ سنائی دیں، شادی شدہ زندگی ادھوری ہے۔ پاکستانی جوڑے اکثر ایک دوسرے کے اخراجات کو “قومی مسئلہ” بنا لیتے ہیں۔ مثلاً وہ لمحہ جب بیوی کو پتا چلتا ہے کہ شوہر نے اپنے بھائی کو قرض دیا ہے، یا شوہر کو احساس ہوتا ہے کہ بیوی کا “صرف ایک چھوٹا سا پرس” بنانے میں ماہانہ بجٹ کا آدھا حصہ لگ گیا۔ یاد رکھیں کہ”شادی کے بعد پیسے اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن اکثر خیالات الگ الگ ہوتے ہیں”
سنہری سبق:
ایک اکاؤنٹنٹ بنا لیں، یا پھر ایک دوسرے کا کریڈٹ کارڈ چھپا دیں۔ دونوں میں سے جو آسان لگے!
“تم بدل گئے ہو!”، وقت کی کٹائی
شادی سے پہلے جو جوڑا رات بھر فون پر بات کرتا تھا، وہی شادی کے بعد ایک دوسرے کے سامنے موبائل چلاتا نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے؟ جواب ہے “وقت کی کمی نہیں، ترجیحات کی جنگ۔” پاکستانی جوڑے اکثر نوکری، بچوں، فیملی اجتماعات، اور سوشل میڈیا کی اسکرولنگ میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو “ٹائم دیں” کا مطلب ہی بھول جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ”محبت بھی پودے کی طرح ہے، جسے روز تھوڑا پانی چاہیے… ورنہ یہ سکڑ کر ویڈنگ البم کی طرح الماری میں بند ہو جاتی ہے۔”
یہ جنگ نہیں، جگنوؤں کا سفر ہے
شادی شدہ زندگی کے چیلنجز کبھی ختم نہیں ہوتے، لیکن انہیں “مسئلے” نہ سمجھیں۔ یہ تو وہ سیڑھیاں ہیں جو آپ کو ایک دوسرے کے قریب لے جاتی ہیں۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ”شادی کامیاب نہیں ہوتی، بس جوڑے کامیاب ہوتے ہیں۔” تو اگلی بار جب سسرال والے کوئی بات کریں یا بیوی کی پسندیدہ ڈرامہ سیریل آپ کو بور کرے، مسکرا کر کہہ دیں کہ چلو، یہ بھی گزر جائے گا۔ ہم تو اکٹھے ہیں نا! کیونکہ حقیقت یہ ہے “شادی کے بعد زندگی آسان نہیں ہوتی… بس آپ مضبوط ہو جاتے ہیں۔”