Skip to content Skip to footer

شوہر کے موبائل کا پاسورڈ: اعتماد کا مسئلہ یا پرائویسی؟



کیا آپ نے کبھی اپنے شوہر کے موبائل کی سکرین کو دیکھتے ہوئے انگلیاں بے چینی سے ٹیپ کرتے محسوس کی ہیں؟
کیا کبھی آپ کے دل میں خیال آیا کہ “اگر میں اس کا پاسورڈ جان لوں تو کیا ہوگا؟
کیا یہ اعتماد کی کمی ہے یا میرا حق؟
کیا آپ نے کبھی کسی دوست کو یہ کہتے سنا ہے کہ “میرے شوہر کا فون تو میری آنکھوں کا تارا ہے، لیکن پاسورڈ میرے لیے ستارہِ بناتوپ بن گیا ہے؟
کیا آپ کے گھر میں بھی یہ بحث ہوئی ہے کہ اگر تمہارے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تو پھر پاسورڈ کیوں؟
اور کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ موبائل کی چھوٹی سی ڈیوائس ہمارے رشتوں میں اتنا بڑا سوال کیسے بن گئی؟ 

یہ سوال صرف پاسورڈ تک نہیں، بلکہ ہمارے رشتوں کی بنیادوں تک پہنچتا ہے۔ کیا ہم ایک دوسرے کے ذہن تک رسائی چاہتے ہیں، یا ایک دوسرے کے دل پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستانی معاشرے میں جہاں رشتوں کا دھاگہ “اعتماد” سے بُنا جاتا ہے، وہیں “پرائیویسی” کو اکثر مغربی تصور سمجھا جاتا ہے۔ مگر جب موبائل کی اسکرین ہماری آنکھوں اور دل کے درمیان حائل ہو جائے، تو کیا ہم اسے توڑنے کی کوشش کریں یا اسے قبول کر لیں؟ 

وہ لمحے جو سب کے ساتھ ہوتے ہیں:

ذرا تصور کریں کہ رات کے 2 بجے ہیں، شوہر گہری نیند میں ہیں، اور موبائل بیڈ کے پاس سرسرا رہا ہے۔ آپ کی انگلیاں بے ساختہ اس کی طرف بڑھتی ہیں۔ پاسورڈ ٹائپ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ “شاید وہ میری تاریخِ پیدائش ہو؟” نہیں۔ “شاید ہماری شادی کی تاریخ؟” نہیں۔ پھر اچانک ایک خیال آتا ہے: “کیا یہ کسی اور کا نام تو نہیں؟”
یہ وہ لمحہ ہے جب پرائویسی اور اعتماد کی جنگ آپ کے ذہن کے اندر شروع ہو جاتی ہے۔ 

پاکستانی معاشرہ: کھلی کتاب یا لاکڈ ڈائری؟

ہمارے ہاں گھر کی چار دیواری میں بھی کچھ باتیں “صرف مردوں کے لیے” اور کچھ “صرف عورتوں کے لیے” ہوتی ہیں۔ مگر موبائل نے اس تقسیم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ خواتین ہیں جو کہتی ہیں: “اگر میرا فون تو شوہر کو پاسورڈ دے سکتا ہوں، تو وہ کیوں نہیں؟” دوسری طرف وہ مرد ہیں جو سمجھتے ہیں: “فون میری جیب کی طرح ہے، کیا تم میری جیب ٹٹولنا چاہو گی؟”
مثال کے طور پر، عالیہ نے اپنے شوہر کے واٹس ایپ میں ایک “خاتون کے ایموجی” دیکھے تو سوال اٹھایا۔ شوہر نے جواب دیا: “یہ تو دفتر کی کولیگ ہے، تمہیں شک ہے کیا؟” اب عالیہ سوال کرتی ہیں: شک نہیں، پر سوال ضرور ہے۔ کیا سوال اٹھانا بے اعتمادی ہے؟”

ٹیکنالوجی نے رشتوں کو کیسے بدلا؟

پہلے زمانے میں خطوط ہوتے تھے جو گھر کے بزرگ بھی پڑھ لیتے تھے۔ آج موبائل کی دنیا میں ہر شخص اپنی “خفیہ دنیا” لے کر چل رہا ہے۔ کیا یہ خفیہ دنیا رشتوں کو مضبوط بناتی ہے یا کمزور؟ مثال لیں رُخسانہ کی، جو اپنے شوہر کے فون کو “انسانوں کی طرح” سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: “جب وہ فون کو مجھ سے چھپاتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے کوئی تیسرا شخص ہمارے درمیان آ گیا ہو۔”

کیا حل ہے؟
کچھ رشتے وہ ہیں جہاں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے پاسورڈز جانتے ہیں مگر کبھی استعمال نہیں کرتے۔ صرف یہ جان کر کہ “رسائی ہے” انہیں اطمینان رہتا ہے۔ کچھ رشتے وہ ہیں جہاں فون کو “ذاتی ڈائری” کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم سوال یہ ہے: “کیا ہم اپنے شریکِ حیات کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتے ہیں یا ایک الگ انسان؟” اگر الگ انسان، تو پرائویسی حق ہے۔ اگر حصہ، تو پھر اعتماد کیوں نہیں؟ 

شاید اس کا جواب ہر رشتے کی نوعیت میں چھپا ہے۔ مگر یاد رکھیں: “فون کو توڑنا آسان ہے، پر اعتماد کو جوڑنا مشکل۔” کیا ہم اپنے رشتوں کو “پاسورڈز” کی بجائے “باتوں” سے محفوظ کر سکتے ہیں؟ سوچیں، کیونکہ یہ سوال صرف موبائل تک نہیں، بلکہ ہمارے اپنے آئینے تک پہنچتا ہے۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.