Skip to content Skip to footer

شوہر کی نوکری یا بیوی کی اپنی نوکری: عورت کے لیے کیا ضروری ہے؟



کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جب آپ کی بہن دفتر سے تھکی ہاری واپس آتی ہے تو ماں کا یہ جملہ بیٹا، شوہر کے پیسے ہی تو تمہاری عزت ہیں، کیوں کانوں میں گونجتا ہے؟
کیا واقعی ایک عورت کی پہچان صرف اس کے شوہر کے بینک بیلنس سے ہوتی ہے؟
یا پھر وہ دن دور نہیں جب بیوی کا پروانہ ملازمت گھر کے اُس گوشے میں دب جاتا ہے جہاں اس کی ڈگریاں بھی دبی ہوئی ہیں؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جب آپ کی دوست نے نوکری چھوڑی تو معاشرے نے اسے “اچھی بیوی” کا ٹیگ دے دیا، مگر جب اس نے دوبارہ کام شروع کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ “شوہر کی کمائی کافی نہیں کیا؟”
سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا عورت کی اپنی کمائی صرف رقم تک محدود ہے، یا یہ اس کے اندر کی آواز کو بھی مضبوط کرتی ہے؟

یہ سوال صرف نوکری یا گھر کی بات نہیں، بلکہ عورت کی شناخت، خودمختاری، اور معاشرے کے اُس دباؤ کی کہانی ہے جو اسے ہر موڑ پر بتاتا ہے کہ تمہاری ذمہ داریاں تمہارے خوابوں سے بڑی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں لڑکی کی تعلیم پر فخر کیا جاتا ہے، مگر شادی کے بعد اس کی ڈگری کو گھر کی زینت بنا دیا جاتا ہے، وہاں عورت کے لیے کامیابی کی تعریف اکثر دوسروں کے فیصلوں سے جُڑ جاتی ہے۔ 

وہ لمحے جو سب کو حیران کر دیں

جب فاطمہ نے اپنی پہلی تنخواہ سے ماں کو گفٹ دیا تو خاندان والوں نے کہا: “شوہر کو بتانا نہیں، ورنہ سمجھے گا تمہیں اس کی کمائی کم لگتی ہے۔”

جب ثناء نے پروموشن لی تو سسرال والوں نے کہا: “بیٹا، گھر سنبھالو گی کب؟ مرد تو چاہیے ہی کمانے والا، تمہاریوں نے بھی نہیں دیکھا کوئی کلچر!”
جب زینب نے شادی کے بعد نوکری چھوڑی تو دوستوں نے کہا: “تم تو آزاد تھیں، اب گھر کی “ملازمہ” بن گئی ہو۔”

کیا یہ صرف “کمانے” کی بات ہے؟

نہیں! یہ اُس احساس کی جنگ ہے جب عورت کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر میں کماؤں تو میری ذات ‘ضرورت’ نہیں رہے گی، اور اگر نہ کماؤں تو میری صلاحیتیں ‘فضول” سمجھی جائیں گی۔” مثال لیجیے عائشہ کی، جو صبح 7 بجے ناشتہ بنا کر دفتر جاتی ہے، شام کو بچوں کی ہوم ورٹری چیک کرتی ہے، رات کو شوہر کے لیے سلاد کاٹتی ہے، اور پھر بھی سنتی ہے: “تمہیں تو وقت ہی نہیں ملتا گھر والوں کے لیے!”

حل کہاں ہے؟

شاید اُس روز، جب شوہر کی جاب اور بیوی کی اپنی جاب کو مقابلے کی بجائے ساتھ سمجھا جائے۔ جیسے سارہ اور احمد نے کیا۔ احمد نے سارہ کے ٹریولنگ جاب کو سپورٹ کیا، تو سارہ نے احمد کی پراجیکٹ ڈیڈ لائنز میں گھر کے کام سنبھالے۔ دونوں کی کمائی الگ ہو کر بھی ایک تھی۔ معاشرے کو شاید یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کی نوکری صرف اکاؤنٹ میں رقم نہیں ڈالتی، بلکہ اُس کے اندر ایک “میں بھی کر سکتی ہوں” کا اعتماد بھرتی ہے۔ 

اگر آپ کی بہن، بیٹی، یا دوست آپ سے پوچھے کہ “کیا میں اپنی نوکری چھوڑ دوں؟” تو اس سے پہلے کہ آپ کوئی جواب دیں، اُس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھیں۔ شاید وہ یہ پوچھ رہی ہو کہ کیا تم مجھے میری مرضی سے جینے دو گے؟

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.