Skip to content Skip to footer

سوسائٹی کا دباؤ اور طلاق یافتہ عورت کی زندگی: کیا ہم نے کبھی اِن سوالوں سے آنکھیں چُرائی ہیں؟



کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ایک عورت طلاق لے کر گھر واپس آتی ہے تو سوسائٹی اُسے “ناکام بیٹی” کیوں سمجھنے لگتی ہے؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ اُس کے چہرے پر لکھی تکلیف کو نظرانداز کرکے، اُس کے “ماضی” کو اُس کا تعارف بنا دیا جاتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک طلاق یافتہ عورت کو بازار میں سانس لینے تک پر معاشرے کی نظریں اُسے کیوں گھونٹتی ہیں؟
کیا ہم نے کبھی اُس سے پوچھا کہ “تم کیسی ہو؟” کی بجائے “تم نے کیوں طلاق لی؟” کیوں پوچھتے ہیں؟

یہ کہانی صرف ایک عورت کی نہیں، ہم سب کی ہے

پاکستانی معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو “خاندان کا کالا دھبہ” سمجھا جاتا ہے۔ اُس کی ذات پر سوال، اُس کے فیصلوں پر تنقید، اور اُس کی آزادی پر پہرے۔ مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ دباؤ صرف اُس عورت کو نہیں، ہماری اپنی سوچ کو بھی زنگ آلود کر رہا ہے؟ 


“تمہاری وجہ سے ہماری بے عزتی ہوتی ہے!”

سنا ہے یہ جملہ؟ جی ہاں، وہ لمحہ جب طلاق کے بعد ماں باپ کا دِل تو بیٹی کے لیے تڑپتا ہے، مگر رشتے داروں کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ مثال؟ وہ خالہ جو ہر جمعرات کو فون کرکے پوچھتی ہیں: “اب کیا ارادہ ہے؟ کیا پھر سے شادی کرلو گی؟ ورنہ تو تمہاری عمر ہی ختم ہو جائے گی۔” گویا عورت کی زندگی کا مقصد صرف “شوہر کے گھر” تک محدود ہے۔ 

“تمہارے بچوں کو کون بیاہے گا؟

یہ سوال اُس وقت کانوں میں گونجتا ہے جب طلاق یافتہ ماں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی کوشش کرتی ہے۔ معاشرہ اُس کے بچوں کو بھی “ناقص النسل” سمجھنے لگتا ہے۔ حقیقت؟ لاہور کی ایک استانیہ نے بتایا کہ “میرے بیٹے کے دوست اُسے کہتے تھے۔۔’تمہاری ماں نے تمہارے ابا کو چھوڑ دیا، تم بھی ویسے ہی ہو۔’ مُجھے اپنے بچے کا درد سہنا پڑا، خود کا نہیں۔”


تمہیں نوکری کیسے مل گئی؟ کیا کسی نے سفارش کی؟

طلاق یافتہ عورت کی کامیابی کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کراچی کی ایک سافٹ ویئر انجینئر نے کہا کہ “جب میں نے پروموشن لی تو دفتر میں افواہ اُڑی کہ میرے مالک میرے ساتھ ‘قریبی تعلقات’ ہیں۔ میری محنت کو کوئی دیکھنے کو تیار نہیں۔

تمہارا گھر تو ٹوٹ گیا، اب ہمارے گھر میں کیوں مُسکرا رہی ہو؟

طلاق کے بعد عورت کی خوشی بھی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ مثال؟ وہ واقعہ جب ایک طلاق یافتہ خاتون نے اپنی بہن کی شادی میں ڈانس کیا تو چچا زاد بھائی نے کہا کہ “تمہارا تو گھر اجڑ چکا، تمہیں شرم نہیں آتی؟” گویا اُس کے پاس اب خوشی کا کوئی حق نہیں۔ 

“تمہاری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے: دوبارہ بیاہا جاؤ!

معاشرہ طلاق یافتہ عورت کو “نصف انسان” سمجھتا ہے۔ اُس کی خواہشات، خواب، اور صلاحیتیں اُس وقت تک معتبر نہیں ہوتیں جب تک وہ دوبارہ شادی نہ کر لے۔ مگر کیا ہر عورت کی خوشی کا راستہ صرف “شادی” سے گزرتا ہے؟ 


ہاں، تبدیلی ممکن ہے!

سوچیے، کیا ہم اُس عورت کو “طلاق یافتہ” کہہ کر اُس کی پوری شناخت مٹا دینے پر مجبور ہیں؟ یا پھر ہم اُسے ایک انسان سمجھتے ہوئے اُس کے جذبات، عزت، اور خوابوں کو اہمیت دے سکتے ہیں؟ یاد رکھیں، طلاق کسی کی “ناکامی” نہیں، بلکہ ایک “آغاز” ہو سکتی ہے۔ اور ہاں… اگلی بار جب کوئی طلاق یافتہ عورت آپ کے سامنے آئے تو اُس سے پوچھیں ،آپ کیسے ہیں؟ یہ سوال اُس کے لیے دعا سے کم نہیں ہوگا۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.