
کبھی سوچا ہے کہ جب ایک عورت دوسری شادی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے اردگرد کے لوگ کیوں اچانک “اخلاق کے علمبردار” بن جاتے ہیں؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ معاشرہ مردوں کو تو “دوسرا چانس” دیتا ہے، مگر عورت کو “دوسری شادی” پر کیوں “پہلے گناہ” کا ٹیگ لگا دیتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بیوہ یا طلاق یافتہ عورت جب دوبارہ شادی کرتی ہے تو اسے کن کن چہروں پر اُنگلیاں اٹھتی دکھائی دیتی ہیں؟
اور سب سے بڑا سوال کیا خوشی کا حق صرف پہلی شادی تک محدود ہے؟
وہ سوال جو آپ کے گھر کی دیواروں تک میں گونجتے ہیں
دوسری شادی کا نام سنتے ہی معاشرے کی انگلیاں عورت کے چہرے کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ کہیں اسے “بے وفا” کہا جاتا ہے، تو کہیں “خواہشات کی غلام”۔ مگر کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ عورت صرف ایک نئے آغاز کی خواہاں ہے؟
نمبر 1: تمہاری تو پہلی زندگی ناکام ہوئی، اب دوسری کیسے چلاؤ گی؟
پاکستانی معاشرے کا وہ زہریلا جملہ جو ہر دوسری شادی کرنے والی عورت کو سننا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ثناء بیوہ ہونے کے بعد جب دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہے تو اس کے چچا زاد بھائی کہتے ہیں، بیٹی، تمہارے تو بچے ہیں، اب نیا شوہر لاؤ گی تو وہ انہیں کیسے قبول کرے گا؟ مگر وہی معاشرہ ثناء کے بھائی کی دوسری شادی پر کہتا ہے، مرد ہے، گھر سنبھالے گا ہی۔
نمبر 2: تمہاری عزت کا سودا ہو گا!
دوسری شادی کی بات کرتے ہی عورت کے “عزت” کے ٹھیکیدار کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسے فوزیہ کی کہانی میں طلاق کے بعد وہ اپنے لیے ایک نیا گھر بنانا چاہتی تھی، مگر اس کی ماں نے کہا، بیٹی، لوگ کہیں گے تم نے پیسے کے لیے شادی کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک عورت کی خوشی اس کی عزت سے زیادہ اہم نہیں؟
نمبر 3: تمہارے بچے تمہیں معاف نہیں کریں گے
دوسری شادی کے لیے سب سے بڑی جنگ اکثر اولاد ہی ہوتی ہے۔ جیسے زرینہ کے ساتھ ہوا: جب اس نے اپنے بچوں کو نیا باپ دینے کی کوشش کی تو اس کی بیٹی نے کہا، امی، آپ نے ابّا کو بھلا دیا؟ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ایک ماں کی خوشی اور بچوں کی خوشی الگ الگ کر کے دیکھی جانی چاہیے؟
نمبر 4: تمہاری عمر تو گزر گئی، اب شادی کس لیے؟
معاشرے کی وہ گھٹیا سوچ جو عورت کی عمر کو اس کے حقوق کا پیمانہ بنا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر 45 سالہ نازشاں جب دوسری شادی کا اعلان کرتی ہے تو رشتے دار کہتے ہیں، “اب تو جوانی گئی، شادی کر کے کیا کرو گی؟” مگر اسی عمر کے مرد کو کہا جاتا ہے، “ابھی تو جیون ساتھی ڈھونڈ لو۔”
نمبر 5: “تمہارا نیا شوہر تمہیں کیوں قبول کرے گا؟”
یہ سوال عورت کی ذات کو ایک “پہلے سے استعمال شدہ” شے بنا کر پیش کرتا ہے۔ جیسے سارہ کے سسرال والے اس کے نئے شوہر سے کہتے ہیں، “دیکھنا، یہ پہلے بھی شادی کر چکی ہے۔” گویا اس کی پہچان اب صرف اس کی “ماضی” ہے۔
کیا ہم اس سوچ کو بدل سکتے ہیں؟
جی ہاں! جب ہم یہ سمجھیں گے کہ عورت کی خوشی کا حق کسی ایک شادی تک محدود نہیں، تو پھر دوسری شادی پر سوال اٹھانے والے ہونٹ خود بخود بند ہو جائیں گے۔ یاد رکھیے: **”جو عورت اپنی زندگی بدل سکتی ہے، وہ معاشرے کی سوچ بھی بدل سکتی ہے۔