
کبھی سوچا ہے کہ آپ کی زندگی کے اہم فیصلے دراصل آپ کے اپنے نہیں؟
جب آپ نے اپنے خوابوں کی وہ ڈگری چنی جسے گھر والوں نے بے روزگاری کا سرٹیفکیٹ قرار دے دیا… یا جب آپ نے کسی سے محبت کی مگر رشتے داروں نے کہا ہماری نسلوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا … کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ آپ کا دل ایک طرف کھینچتا ہے اور سماج کی بھلائی نامی ڈور دوسری طرف؟
ہم سب ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہوتا آیا ہے کو ہونا چاہیے سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہاں ذاتی خواہشات اکثر ثقافتی اقدار کے سامنے بے وزن ہوتی ہیں، مگر کیا یہ ٹکراؤ صرف ہماری ذات تک محدود ہے؟ نہیں۔ یہ ہمارے گھروں کی دیواروں، دفتروں کے کونوں، اور سوشل میڈیا کی سکرینوں تک پھیلا ہوا ہے۔
تمہاری خواہش تمہارے لیے، ہمارے اصول ہمارے لیے
پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انفرادیت کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک لڑکی جو گھر سے باہر کیرئیر بنانا چاہتی ہے، اُسے سننے کو ملتا ہے: تمہاری ماں نے تو پورا گھر سنبھال کر رکھا تھا، تم کیوں نہیں کر سکتیں؟ یا ایک لڑکا جو ڈانس کلاسز جوائن کرتا ہے، اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے: یہ تو لڑکیوں جیسے کام ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ جملے کسی کی ذات کو کس طرح کاٹ دیتے ہیں؟
محبت کرو، مگر حساب سے!
ہمارے ہاں محبت کو غیر اخلاقی اور شادی کو معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک نوجوان جو اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہے، اُس کے لیے فیملی کا جملہ ہوتا ہے: ہم نے تمہیں پڑھا لکھا کر یونیورسٹی بھیجا تھا، تم نے وہاں یہی سیکھا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر وہی محبت شادی کے بعد ہو تو اُسے رشتوں کا احترام کہا جاتا ہے۔ کیا محبت کا کوئی وقت مقرر ہوتا ہے؟
کپڑے تبدیل کرو، سوچ نہیں
ہماری ثقافت کا ایک اور تضاد یہ ہے کہ آپ جدید تعلیم حاصل کریں، بیرون ملک جا کر کام کریں، مگر جب تک آپ کے کپڑے، بات چیت کا انداز، یا رہن سہن ہماری روایت کے مطابق نہ ہو، آپ کو بہکا ہوا قرار دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک لڑکی جو جینز پہن کر انگلش میں بات کرتی ہے، اُسے گھر میں کہا جاتا ہے: تمہاری دادی اماں تو دوپٹے میں بھی انگریزی بول لیتی تھیں! گویا جدیدیت صرف بیرونی چمک ہے، اندرونی سوچ پر پابندی ہے۔
ہم اکثر ثقافت کو وراثت سمجھتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ ایک زندہ چیز ہے جو وقت کے ساتھ بدلتی ہے۔ ہماری آج کی روایتیں کبھی نئی تھیں۔ مثال کے طور پر، ہمارے آباؤ اجداد نے کبھی موبائل فون کو غیر اخلاقی نہیں کہا ہوگا، کیونکہ وہ وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔ مگر آج ہم نئی چیزوں کو اپنانے میں کیوں ڈرتے ہیں؟
ثقافت اور ذات کا یہ ٹکراؤ اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم یہ نہ سیکھیں کہ احترام اور پابندی میں فرق ہے۔ اپنی روایات کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نوجوانوں کے خوابوں کو دفن کر دیں۔ یاد رکھیے، ایک درخت اُسی وقت تک مضبوط ہوتا ہے جب اُس کی جڑیں گہری ہوں اور شاخیں آزاد۔