
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ…
وہ عورت جو صبح 5 بجے اٹھ کر بچوں کا لنچ پیک کرتی ہے، کیا اس نے کبھی خواب دیکھے تھے کہ وہ اکیلے ہاتھوں سے زندگی کی ہر جنگ لڑے گی؟
جب سسرال والے کہتے ہیں بیٹا نہیں تو کچھ نہیں، تو کیا اُس نے اپنے بچے کے لیے اپنی دنیا کو چپکے سے دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب معاشرہ اُسے ناکام بیوی کہتا ہے، تو وہ اپنے بچے کو نیند سُلاتے ہوئے کیا کہتی ہوگی؟
اور وہ دن جب تنخواہ ملتی ہے، کیا اُس کے ہاتھ میں نوٹوں کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے ہیں؟
یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، یہ ہمارے گلی کوچوں، دفتروں، اور سکولوں میں چپکے سے جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں۔ پاکستانی سنگل ماؤمز کی کامیابی صرف پیسے کمانے یا بچے پالنے کی کہانی نہیں، یہ اُس ہمت کی داستان ہے جب سماج کے تم نہیں کر سکتی کو دیکھ لو میں نے کر دکھایا میں بدل دیا جاتا ہے۔
امی کو سب آتا ہے کا اصل مطلب:
جب بچہ بخار میں تپ رہا ہو، بلب جل چکا ہو، اور ماں کے پاس کلائنٹ کا ای میل آن پہنچا ہو… یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک سنگل ماں ایک ہی سانس میں ڈاکٹر، الیکٹریشن، اور ایمپلائی بن جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ پاکستان میں ہر 10 میں سے 3 سنگل ماؤمز رات کے 2 بجے تک جاگ کر فری لانسنگ کرتی ہیں۔
تمہاری کہانی میں کون دلچسپی لے گا؟ سے تمہاری کہانی ہر دلچسپی کی حقدار ہے تک:
لاہور کی رابعہ نے جب سوشل میڈیا پر ہینڈ میڈ جیولری بیچنی شروع کی تو لوگ کہتے تھےشوہر کو کہو مدد کرے، مگر آج اُس کی چھوٹی سی دکان نے اُسے ایئرپورٹ پر اپنا شو روم دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اُس کا پہلا آرڈر اُس دن آیا تھا جب اُس کی بیٹی ہسپتال میں تھی۔
تم اکیلے کیا کرو گی؟ کا جواب:
کراچی کی ثناء نے جب ڈیلیوری بائیک چلانا سیکھی تو محلے والوں نے کہا بیٹا، عورت کا یہ کام نہیں، مگر آج وہ اپنی گاڑی کے پیچھے لکھواتی ہے: یہ بائیک نہیں، میری آزادی کا پرچم ہے۔
پاکستان میں سنگل ماووں کے کاروباروں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی چیز کیا ہے؟ گھر کا بنا اچار۔ کیونکہ یہ وہ ہنر ہے جو ماں کے ہاتھوں میں خاندان کی شان سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہی شان اُن کا سہارا بن گئی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سنگل ماؤمز کے بچے اکثر اپنی امی کو سپرہیرو کہتے ہیں؟ ایک سروے کے مطابق، 70% بچوں کو لگتا ہے کہ اُن کی امی کو ٹائم مشین ہے، کیونکہ وہ ایک ہی وقت میں کئی کام کر لیتی ہیں۔
سنگل ماووں کی کامیابی کا راز؟ یہ وہ نہیں جو وہ کرتی ہیں، بلکہ وہ جو وہ چھوڑ دیتی ہیں:
نیند، رشتوں کی ڈگی، اور معاشرے کے وہ الفاظ جو اُن کے لیے نا تھے۔ تو اگلی بار جب آپ کوئی عورت دیکھیں جو ایک ہاتھ میں لپ اسٹک اور دوسرے میں بچے کا بستہ تھامے ہو… جان لیں کہ یہ کوئی عام عورت نہیں، یہ تو وہ جنگجو ہے جو ہارنا جانتے ہوئے بھی جیت گئی۔