
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک زہریلے رشتے میں پھنسے رہنے کی سب سے بڑی وجہ آپ کی اپنی خوشی نہیں، بلکہ خاندان کی خوشی ہوتی ہے؟
کیا آپ کو وہ لمحے یاد ہیں جب ماں نے آنسو بہا کر کہا تھا، بیٹا، تمہاری شادی ٹوٹ گئی تو ہماری عزت کا کیا ہوگا؟ یا باپ نے غصے سے کہا، ہماری نسل میں طلاق کا کوئی تصور نہیں!
کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکنیں خاندان کے ڈر سے رک سی جاتی ہیں؟
کیا آپ بھی اُس کرب میں جی رہے ہیں جہاں خود کو بچانے کا فیصلہ کرنا، خاندان کو ڈبو دینے جیسا لگتا ہے؟
زہریلے رشتے سے نکلنے کا فیصلہ صرف دو لوگوں کے درمیان نہیں ہوتا، یہ پورے خاندان کی جنگیں لڑواتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں رشتوں کو تقدیس کا لبادہ پہنایا جاتا ہے، چاہے وہ رشتہ زخموں سے بھرا ہو۔ یہاں خاندان کی عزت اکثر عورت کی سانسیں گنتی ہے، اور لوگ کیا کہیں گے؟ کا خوف، انسان کو اپنی تکلیف بھولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تم تو ہمت ہار گئی!
خاندان کا دباؤ صرف جذباتی نہیں ہوتا—یہ ایک سٹریٹیجک وار ہوتا ہے۔ جیسے فاطمہ کی ماں نے کہا، تمہارے ابا کو بلڈ پریشر ہے، تم نے طلاق لی تو وہ زندہ نہیں بچیں گے۔ یا جیسے احمد کے چچا نے دھمکی دی، تم نے اگر اپنی بیوی کو چھوڑا تو تمہارا حصہ وراثت سے نکال دیا جائے گا۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جو رشتوں کو جہنم بنا کر بھی خاندان کی چادر میں لپیٹ دیے جاتے ہیں۔
میری جان، یہ سب تمہاری ہی غلطی ہے!
پاکستانی گھرانوں میں بلا میرا بھی کوئی ہے والا تصور زندہ ہے۔ اگر شادی ناکام ہوئی تو عورت سے کہا جاتا ہے، تم نے شوہر کو سنبھالا کیوں نہیں؟ اور مرد سے کہا جاتا ہے، تم کماؤ گے نہیں تو بیوی کیسے خوش رہے گی؟ غلطی ہمیشہ تم پر ڈال دی جاتی ہے، رشتے کی زہریلیت پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
کیا تمہیں اپنے بچوں کی پرواہ نہیں؟
جذباتی بلیک میل کا سب سے طاقتور ہتجیار،بچے۔ جیسے ثناء کی ساس نے کہا، طلاق لو گی تو بچے ماں باپ کے بغیر کہاں جائیں گے؟ ہم تمہیں کبھی ملنے نہیں دیں گے۔ یہ جملے ایسے ہوتے ہیں جیسے سینے پر پہاڑ رکھ دیا گیا ہو۔ مگر کبھی سوچا؟ زہریلے ماحول میں پلنے والے بچے کیا محسوس کرتے ہوں گے؟
مگر میں تنہا کیسے لڑوں؟
خاندان کے دباؤ سے نکلنے کا راستہ اکیلے طے کرنا ناممکن لگتا ہے۔ مگر یاد رکھیے:
آواز اٹھائیے: کسی قابل بھروسہ دوست یا تھیراپسٹ سے بات کریں۔ جیسے زرینہ نے کیا، وہ خاموشی توڑ کر ایک NGO سے جڑ گئی۔
حقوق جانئے: پاکستان میں خواتین کے لیے تحفظ کے قوانین موجود ہیں۔ وکیل نجمہ نے بتایا، طلاق کا حق آپ کی مرضی پر ہے، خاندان کی نہیں۔
خود کو یاد دلائیے:میں عزت کے لائق ہوں، صرف تب ہی نہیں جب میں خاندان کی شرطیں پوری کروں۔
خاندان کا دباؤ ایک جذباتی قبرستان بن سکتا ہے، جہاں آپ کی خوشیاں دفن ہو جاتی ہیں۔ مگر یاد رکھیے، زندہ لاش بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ خود کو دوبارہ جِلا کر دکھائیں۔ پاکستانی معاشرہ بدل رہا ہے۔ آج کل کی نوجوان نسل کہتی ہے، ہماری عزت ہمارے اعمال میں ہے، کسی رشتے کے بندھن میں نہیں۔
تو پھر کیوں نہ اُس چنگاری کو ہوا دی جائے جو آپ کے اندر زندہ ہے؟ کیونکہ آپ کی زندگی کا مقصد صرف خاندان کی خوشی نہیں۔ آپ کی اپنی سانسوں کی قدر بھی تو ہے نا؟