
کبھی سوچا ہے کہ صبح اٹھتے ہی فون پر نوٹیفکیشنز چیک کرنا آپ کی پہلی سانس بن گیا ہے؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ چائے کے وقفے میں بھی آپ کا دماغ ٹاسک لیسٹ چلا رہا ہوتا ہے؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ رات کے 2 بجے تک جاگنا، دوستوں سے ملاقاتوں کو ٹائم ویسٹ سمجھنا، اور ہر چھوٹی کامیابی پر بھی خود کو نالائق گرداننا… یہ سب نارمل ہے؟
کیا آپ کے گھر میں بھی یہ جملہ گونجتا ہے: بیٹا، تمہارے چچا زاد بھائی نے تو ابھی گاڑی لے لی، تمہارا کیا ارادہ ہے؟
اگر ہاں، تو مبارک ہو! آپ ہک اپ کلچر کے اس جنگل میں کھو چکے ہیں، جہاں تھکاوٹ کو ٹرینڈ، خوابوں کو ڈیڈلائنز، اور زندگی کو ریس بنا دیا گیا ہے۔
یہ جنگل کس کا بنایا ہوا ہے؟
پاکستانی معاشرہ جہاں کامیابی کی تعریف صرف اچھی نوکری، موبائل فون کے لیٹسٹ ماڈل، یا سوشل میڈیا پر لائف اسٹائل دکھانے تک محدود ہو چکی ہے، وہاں ہک اپ کلچر ایک خاموش طوفان بن کر آیا ہے۔ یہ نہیں بتاتا کہ رُکنا بھی ضروری ہے، بس یہ دہراتا ہے: دوڑتے رہو، ورنہ پیچھے رہ جاؤ گے!
نیند کو گناہ مت سمجھو!
سنیے، وہ پراجیکٹ جو آپ رات کے 3 بجے تک کر رہے ہیں، کل صبح اٹھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں، بالکل ویسے جیسے آپ کی والدہ کہتی ہیں: بیٹا، آنکھیں بند کرو، ورنہ سر درد ہو جائے گا۔ نیند کو وقت کا ضیاع سمجھنے والے! یاد رکھیں: جسم بیٹری نہیں کہ رات بھر چارج ہو جائے، یہ تو ایک پودا ہے جسے آرام کی بارش چاہیے۔
فون کو ساتھی نہ بنائیں:
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر نوٹیفکیشن آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کا ایک چھوٹا بم پھاڑتا ہے؟ جی ہاں! یہی وجہ ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ صرف ایک میسج چیک کر لوں، پھر ایک گھنٹہ اسکرول کرتے گزر جاتا ہے۔ ٹرائی کریں: دن میں ۲ بار سوشل میڈیا چیک کریں، بالکل ویسے جیسے آپ ناشتے اور شام کی چائے کا وقت مقرر کرتے ہیں۔
کامیابی کا میٹر وہ نہیں جو سوشل میڈیا دکھاتا ہے!
وہ لڑکا جس کی انسٹاگرام سٹوریز میں لگژری لائف نظر آتی ہے، شاید اس کا مہینے کا کرایہ بھرنے کے لیے والدین سے پیسے مانگتا ہو۔ یاد رکھیں: ہر چمکتے ہوئے اکاؤنٹ کے پیچھے ایک اداس ہسٹری چھپی ہوتی ہے۔کبھی آپ نے سوچا کہ کامیاب لوگ پارٹیوں میں کیوں نہیں آتے؟ شاید وہ گھر پر بیٹھ کر آرام کر رہے ہوتے ہیں!
نہ کہنا سیکھو، ورنہ جینا بھول جاؤ گے!
پاکستانی کلچر میں ہاں کہنا ایک مہارت سمجھا جاتا ہے، لیکن جب آپ کالج، نوکری، فری لانسنگ، اور خاندانی تقریبات کو ایک ساتھ سنبھالنے کی کوشش کریں گے تو یہ مہارت آپ کو ہسپتال پہنچا دے گی۔ مثال کے طور پر وہ بھائی جو شادی میں ڈیجی کے ساتھ کھڑا ہو کر بھی لیپ ٹاپ پر ای میلز چیک کر رہا ہو!
خود کو یاد دلاؤ: تم انسان ہو، روبوٹ نہیں!
آج ہی ایک کاغذ پر لکھیں: میں تھک سکتا ہوں، گر سکتا ہوں، اور رُک سکتا ہوں۔یہ جملہ آپ کے کمپیوٹر اسٹیکر پر چپکا دیں۔ یاد رکھیں: جس مشین کو روز آئل نہ لگایا جائے، وہ یکدم بند ہو جاتی ہے۔
زندگی کو ہک اپ نہ بننے دیں!
ہک اپ کلچر کا سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ یہ آپ کو یقین دلائے گا: ابھی نہیں تو کبھی نہیں! لیکن سچ یہ ہے کہ ابھی کے چکر میں آپ ہمیشہ کھو سکتے ہیں۔ کبھی کسی بوڑھے سے پوچھیں: کیا وہ اپنی زندگی کے اُٹھائے ہوئے بوجھ کو یاد رکھتا ہے، یا پھر ان لمحوں کو جو اس نے گنوا دیے؟