
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کا فون چھپاتے ہوئے ہاتھ کانپتا ہے تو کون سی چیز آپ کو ڈراتی ہے؟ کیا یہ وہ پیغام ہے جو کسی نامناسب تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے، یا وہ خوف کہ معاشرہ آپ کو ایک ایسے لیبل کے ساتھ زندہ درگور کر دے گا جسے آپ نے کبھی اپنے لیے منتخب نہیں کیا؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کی غلطی نہ ہونے کے باوجود آپ کے کندھوں پر شرم کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے؟
کیا یہ شرم دراصل معاشرے کی اپنی ناکامی کو چھپانے کا ایک ہتھکنڈا ہے؟
ہمارا معاشرہ غیر محفوظ تعلقات کے بعد شرم کا ٹیگ لگانے میں ماہر ہے، مگر کیا یہ شرم صرف ایک فرد تک محدود ہونی چاہیے؟ جب ایک لڑکی کو گلی میں چہرہ چھپاتے دیکھا جاتا ہے، یا ایک لڑکے کو خاندانی محفلوں میں طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ شرم دراصل ہم سب کے اجتماعی ضمیر پر ایک دھبہ ہے؟
معاشرے کا ہیپوکریسی کا ماسک:
ہم وہ معاشرہ ہیں جہاں محبت کا لفظ گالی سمجھا جاتا ہے، لیکن شادی کے بعد بیٹی کو میاں کو خوش رکھنا سیکھو جیسے جملے بڑے فخر سے سکھائے جاتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں کہ ہم لڑکیوں کو پاکدامنی کا سبق دیتے ہیں مگر لڑکوں کو مرد ہو، تھوڑا تو شوخیاں کریں گے کہہ کر جوانی کے ہر تجربے کی اجازت دیتے ہیں؟ مثال لیجیے: ایک لڑکا اگر کسی لڑکی سے بات کرتا ہے تو اسے چھیڑا جاتا ہے، مگر لڑکی اگر جواب دے تو اسے بےحیا۔ یہ دوہرا معیار ہمارے گھروں کی دیواروں تک میں رچا ہوا ہے۔
ٹیگ آف شیم کا کھیل:
سوچیں، جب کسی لڑکی کے ماضی کا راز فاش ہوتا ہے تو خاندان کی پہلی ترجیح اسے جھٹک کر شادی کا بوجھ اتارنا ہوتا ہے۔ مگر کیا کبھی اس لڑکے کو بھی شرمسار کیا گیا جس نے اسے ٹیگ کیا تھا؟ نہیں۔ کیونکہ معاشرے کا قاعدہ ہے: گناہ کرنے والا تو صرف وہی ہے جس کے ہاتھ میں کوئی ریکارڈنگ نہیں۔
ڈر کی ثقافت:
ہم ڈرتے ہیں بات کرنے سے، سوال اٹھانے سے۔ ایک مثال: جب کالج کی لڑکی کو ہاسٹل سے نکالا جاتا ہے بدنامی کے خوف سے، تو کیا کبھی ہاسٹل کے گیٹ پر لڑکوں کے ہجوم کو ٹوکا گیا؟ نہیں۔ کیونکہ ڈر ہمیں خاموش کراتا ہے… اور خاموشی ہمیں اُس شرم کے ٹیگ کو گہرا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
نئی نسل کی بغاوت… یا بے بسی؟:
سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے والی لڑکی کو ہم بےحیا کہتے ہیں، مگر کبھی اس کے پیچھے چھپے اکیلے پن کو سمجھنے کی کوشش کی؟ ہماری نوجوان نسل جن غیر محفوظ تعلقات میں الجھتی ہے، وہ اکثر والدین کی لاپرواہی، جنسی تعلیم کے فقدان، یا محض تنہائی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا حل صرف ایک ہے: شادی کر دو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کیا ہم خود اپنے دشمن ہیں؟
یہاں تک پڑھ کر اگر آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ یہ تحریر بند کریں تو رکیے… یہی وہ لمحہ ہے جب ہم اپنی سوچ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ کیا ہم واقعی ایک ایسے معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو غلطیوں کو سزا دے کر خود کو پاک صاف ثابت کرتا ہے؟ یا پھر ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھنے، انہیں تعلیم دینے، اور ان کی غلطیوں کو شرم کی بجائے سبق بنانے کی ضرورت ہے؟
شرم کا ٹیگ لگانے والے ہاتھ اکثر وہ ہوتے ہیں جو خود کبھی کسی تاریک کونے میں چھپ کر اپنی کمزوریاں چھپاتے رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے آج آپ کسی کو شرمسار کر رہے ہوں، کل کوئی آپ کے لیے یہی کام کرے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم اپنے معاشرے کو شرم کی بجائے سمجھ کی بنیاد پر استوار کر سکتے ہیں؟ جواب آپ کے ہاتھ میں ہے۔