
کبھی سوچا ہے کہ جب آپ کسی سے ملتے ہیں تو دل کی دھڑکنیں کیوں دو مختلف سمتوں میں بھاگتی ہیں؟
کیا آپ نے کبھی اپنے دوست کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اچانک ایک جھٹکا محسوس کیا ہے جسے آپ سمجھ نہیں پاتے؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ جب آپ کسی ایک صنف کی طرف مائل ہوتے ہیں تو سماج آپ کو نارمل سمجھتا ہے، لیکن جب دوسری طرف دیکھتے ہیں تو آپ کے دل میں ایک خاموش سوال اٹھتا ہے: میں ہوں کون؟
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کی خواہشات آپ کے اردگرد کے لوگوں کی کتابوں میں لکھے اصولوں سے میل نہیں کھاتیں؟ جیسے کسی پارٹی میں آپ کا دوست آپ کو اپنی بہن سے ملوانے کی کوشش کرے، اور آپ کا دل اس کے بجائے اس کے قریبی دوست کی طرف کھنچے؟ یا پھر جب آپ کسی ہم جنس کو دیکھتے ہیں تو آپ کا جسم ایک انوکھی حرارت سے بھر جاتا ہے، لیکن آپ کا دماغ چلا اٹھتا ہے: یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
ہم سب کے دل کی زبان الگ ہے… مگر سماج کو ترجمہ چاہیے
جنسیت کو سمجھنے کا سفر اکثر ایسا ہوتا ہے جیسے کسی جنگل میں بغیر نقشے کے چلنا۔ ہماری سوچ، خواہشات، اور جذبات وہ راستے ہیں جو ہمیں کھینچتے ہیں، لیکن پاکستانی معاشرہ ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ تمہارا راستہ وہی ہونا چاہیے جو ہم نے بنایا ہے۔ جب آپ کسی ایک صنف کی طرف دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ عزیز ہوتے ہیں، لیکن اگر آپ کا دل دونوں طرف دھڑکے تو آپ سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے اپنے خیالات آپ سے پوچھتے ہیں: کیا میں غلط ہوں؟
وہ لمحے جو آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ عام نہیں ہیں
جب آپ کی والدہ کہتی ہیں: بیٹا، شادی کرو گے تو ہمارا خاندان چمک اٹھے گا، مگر آپ کا دل کہتا ہے کہ شاید خاندان کی تعریف ہی وہ نہیں جو سب سمجھتے ہیں۔
جب آپ کالج میں اپنے ہم جماعت لڑکے کی ہنسی پر مسکرا اٹھتے ہیں، اور پھر اچانک خوف آتا ہے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔
جب آپ سوشل میڈیا پر LGBTQ+ کی تحریکوں کو فالو کرتے ہیں، لیکن اسے چھپانے کے لیے اپنے اکاؤنٹ کو پرائیویٹ رکھتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہیں… مگر آپ کو ایسا لگتا ہے
پاکستان میں ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں، لیکن ان کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بائی سیکشوئلٹی دنیا کی 15% آبادی میں پائی جاتی ہے؟ مگر ہمارے ہاں اس پر بات کرنا غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ ہماری فلمیں، ڈرامے، حتیٰ کہ نصاب تک یہ سکھاتے ہیں کہ محبت صرف ایک مخصوص ڈبے میں ہونی چاہیے۔ لیکن دل کبھی ڈبوں میں نہیں سمٹتا۔
آپ کا جذباتی ٹریفک جام ہے… اور کوئی سگنل نہیں
جنسیت کو سمجھنے کی کوشش اکثر ایسی ہوتی ہے جیسے آپ کراچی کے ہنگامہ خیز چوراہے پر کھڑے ہوں۔ ایک طرف خاندان کی توقعات، دوسری طرف سماج کی تنقید، اور درمیان میں آپ کا دل جو کہتا ہے: میں صرف سانس لینا چاہتا ہوں۔ مثال کے طور پر، ایک لڑکی جو اپنی سہیلی کے ساتھ وقت گزارتی ہے تو لوگ کہتے ہیں: واہ، کیا پیاری دوستی ہے! لیکن اگر وہی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ نظر آئے تو فوراً شادی کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مگر اگر وہ دونوں کی طرف محسوس کرے؟ تو پھر؟
آخر کیوں؟
کیونکہ ہماری ثقافت میں الٹی سیدھی محبت کو مرض سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ہم نے سیکھا ہے کہ مختلف ہونا خطرناک ہے۔ مگر یاد رکھیں: آپ کی جنسیت آپ کی پہچان نہیں، آپ کی انفرادیت ہے۔ جیسے کوئی پھول کسی گملے میں اگے یا جنگل میں، وہ خوشبو تو اپنی ہی پھیلاتا ہے۔
تو کیا کریں؟
اپنے آپ سے پوچھیں: کیا میں اپنے دل کی آواز سننے کے لیے تیار ہوں؟ شروعات چھوٹے سوالوں سے کریں۔ اپنے جذبات کو ڈائری میں لکھیں۔ کسی ایسے شخص سے بات کریں جو آپ کو جج نہ کرے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ یقین رکھیں کہ تمہارا وجود کسی کی تنقید سے چھوٹا نہیں ہوتا۔
کیونکہ آخر کار زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر باب کا عنوان آپ خود لکھتے ہیں۔ اور شاید یہی کنفیوژن دراصل وہ صفحہ ہے جہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔