Skip to content Skip to footer

فیمیل لیڈ رشتے: کیا لڑکی کا پہل کرنا معاشرے کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے؟ 


کبھی سوچا ہے کہ جب لڑکی دل کی بات کہتی ہے تو اسے  بے غیرتی کیوں سمجھا جاتا ہے؟
کیا آپ نے محسوس کیا ہے کہ لڑکے کا پیغام بھیجنا رومانس ہے مگر لڑکی کا پیغام بھیجنا بے حیائی؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جس لڑکی نے اپنی پسند کا اظہار کیا، اسے گھر والوں نے کہا: تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟
کیا آپ نے دیکھا ہے کہ جب کوئی لڑکی رشتے میں پہل کرتی ہے تو معاشرہ اسے چیلنج کیوں سمجھتا ہے؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری نسلیں محبت کے اصول مردوں کے ہاتھ میں دے چکی ہیں؟ 
 
پاکستانی معاشرہ اُس لڑکی کو بہادر کہنے کی بجائے بے ضابطہ قرار دیتا ہے جو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہے۔ یہاں رشتوں کی ابتدا بھی ایک جنرل کی کمان میں ہوتی ہے جہاں فیمیل لیڈر شپ کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ 

تمہاری تو پھر شادی ہی مشکل ہو جائے گی!

سنا ہے یہ جملہ؟ جی ہاں، وہی جب لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرتی ہے تو گھر والے اسے مارکیٹ ویلیو گھٹنے کا سبب بتاتے ہیں۔ مثال لیجیے ثناء کی، جس نے ایک لڑکے کو کہا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ خبر پھیلی تو محلے والوں نے کہا: لگتا ہے ماں باپ نے تربیت نہیں دی۔ ثناء کی جرأت کا نتیجہ؟ خاندان نے اسے ۶ ماہ تک گھر میں بند رکھا۔ 

لوگ کیا کہیں گے؟ کا خوف 

یہ خوف ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ عائشہ نے اپنے کزن کو پیغام بھیجا کہ وہ شادی کے لیے تیار ہے۔ نتیجہ؟ خاندان میں جنگ چھڑ گئی۔ چچا نے کہا: لڑکی نے پیغام بھیج دیا؟ یہ تو ہماری عزت کا سوال ہے! عائشہ کا قصور؟ اس نے مرد کے ٹھیکیداری کے نظام کو چیلنج کر دیا۔ 

مگر… کیا یہ سب حقیقی ہے؟ 

جی نہیں! کچھ گھرانے اب فیمیل لیڈ رشتوں کو اچھوتا نہیں، انوکھا سمجھتے ہیں۔ زینب کی کہانی سنیے: اس نے اپنے دفتر کے ساتھی کو کہا کہ وہ اس کے گھر والوں سے ملنا چاہتی ہے۔ لڑکے کے والد نے پہلے تو حیران ہوئے، پھر کہا: بیٹا، تمہاری ہمت کو سلام۔ آج زینب کی شادی اسی سے ہے، اور وہ کہتی ہے: میں نے محسوس کیا کہ میری خوشی میرے ہاتھ میں ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں لڑکی کا جذبات کا اظہار اُسے کمزور نہیں، بلکہ طاقتور بناتا ہے، مگر یہ طاقت ہمیں ڈراتی ہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی لڑکیاں انتظار کرتی ہیں، جبکہ بری لڑکیاں اپنی منزل خود بناتی ہیں۔ 

اگر آپ کا دل کسی سے لگ جائے تو اسے بیان کرنے کا حق صرف مردوں کی میراث نہیں۔ یاد رکھیے، محبت کو جنسیت نہیں، عزتِ نفس چاہیے۔ اور ہاں… معاشرہ تب تک بدلے گا جب تک آپ اپنے فیصلوں پر لوگ کیا کہیں گے کی تلوار لٹکائیں گے۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.