
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک “شوگر ڈیڈی یا ممی کی تلاش میں نکلنے والی لڑکی صرف پیسے کے لیے ایسا کرتی ہے، یا شاید اس کی آنکھوں کے پیچھے کوئی اور کہانی چھپی ہو؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ایک لڑکی اپنے فون پر آپ کی عمر کیا ہے؟ والے میسج پڑھتی ہے تو اس کے ہاتھ کیوں کانپتے ہیں؟
کیا یہ صرف مالی فائدہ ہے، یا پھر تنہائی، سماجی دباؤ، یا گھر والوں کی ناکامی کا خوف بھی اس فیصلے میں شامل ہوتا ہے؟
کیا یہ تعلقات فائدے کی بنیاد پر شروع ہو کر نقصان کی کہانی بن جاتے ہیں؟
ایک جملے میں ساری کہانی
یہ کلچر ایک جذباتی کریڈٹ کارڈ کی طرح ہے۔ آج آپ لُٹ سکتے ہو، مگر کل کو چُکانے کے لیے آپ کی ذات، عزت، اور نفسیاتی سکون بھی گروی رکھنا پڑتا ہے۔
فائدے: وہ چمکتی ہوئی سطح جس کے نیچے تاریکی ہے
فوری حل کا جادو: کالج کی فیس، گھر کا کرایہ، یا ماں کے علاج کا بل… یہ سب ایک میسج کی دوری پر۔ جیسے لاہور کی سارہ نے اپنے بھائی کو ہاسٹل میں داخل کروانے کے لیے شوگر ڈیڈی کو ہاں کہا۔
میٹیریل ورلڈ کا پرکشش جال: وہ iPhone، وہ designer bag، وہ سوشل میڈیا پر پرفیکٹ لائف کی تصویریں… مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ کراچی کی زینب کے ہاتھ میں وہ bag اُس کے راتوں کے آنسوؤں سے بھرا ہوا ہے؟
میں خاص ہوں کا وہم: جب سماج آپ کو نظرانداز کرے، تو کوئی آپ کو پرنسس کہہ کر آپ کے اندر کی خالی جگہ کو بھر دیتا ہے۔ مگر یہ وہم کب تک چلتا ہے؟
نفسیاتی/سماجی خطرات: وہ زخم جو نظر نہیں آتے
ڈسپوزایبل ریلیشن شپ کا زہر: جب آپ کو پیسے کے بدلے ٹائم پاس سمجھا جائے، تو آپ کی خود اعتمادی کہاں جاتی ہے؟ اسلام آباد کی مہک کہتی ہے، وہ مجھے اپنی کار کی سیٹ کی طرح استعمال کرتا تھا… نئی آئی تو پرانی کو پھینک دیا۔
خاندان کا ٹوٹا ہوا آئینہ:اگر گھر والوں کو پتہ چل جائے؟ فیصل آباد کی صدف کے گھر میں اس کا باپ اُسے مردہ سمجھتا ہے… اور وہ زندہ لاش بن کر رہ گئی ہے۔
مستقبل کے تعلقات کی کھوکھلی بنیاد: جب آپ کو یہ عادت پڑ جائے کہ محبت کے نام پر صرف لینا ہے، تو پھر کسی عام لڑکے کے ساتھ کیسے بندھو گے؟
حقیقی زندگی کے وہ مکالمے جو آپ کو چونکا دیں گے
تمہاری ڈریس دیکھ کر لگتا ہے تمہارا شوگر ڈیڈی تمہیں پارٹی میں لے آیا ہے۔ (یہ جملہ کراچی یونیورسٹی کی کینٹین میں ایک لڑکی کو کہا گیا)۔
امی کو کینسر تھا… میں نے سوچا، خدا نے مجھے خوبصورتی دی ہے، اسے بیچ کر امی کو بچا لوں۔
اب میں کسی سے ڈرتی ہوں نہیں… بس اپنے آپ سے ڈرتی ہوں۔
سوال جو آپ کو اپنے آپ سے پوچھنے چاہئیں
کیا آپ کی ضرورت اتنی بڑی ہے کہ آپ اپنے خوابوں کو کسی اور کے ہاتھ میں گروی رکھ دیں؟
کیا آپ اُس رات کو سونے سے پہلے اپنے آئینے میں آنکھیں ملا سکتی ہیں؟
اور کیا آپ جانتے ہیں کہ شوگر کبھی کڑوا ہو جاتا ہے؟
یہ صرف آپ کا فیصلہ نہیں…
یہ کلچر صرف لڑکیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا آئینہ ہے جس میں ہم سب کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب تک ہم غربت، بے روزگاری، اور لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے والی سوچ کو نہیں بدلیں گے، یہ کہانیاں دہرائی جاتی رہیں گی۔ سوچیں کیا ہم سب مل کر اس آئینے کو صاف کر سکتے ہیں؟