Skip to content Skip to footer

مالی مدد کے بدلے رشتے: کیا یہ آزادی ہے یا استحصال؟ 



کبھی آپ نے سوچا ہے کہ… 

وہ بیٹی جو ماں باپ کے قرضے اُتارنے کے لیے کسی اچھے گھرانے میں بیاہ دی جاتی ہے، کیا وہ اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہے یا اپنے خاندان کا بوجھ اُٹھا رہی ہے؟ 
وہ نوجوان جو بیرونِ ملک کماتا ہے اور پورے خاندان کی مالی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے، کیا وہ ہیرو بن رہا ہے یا اپنی جوانی کا سکون گروی رکھوا رہا ہے؟ 
وہ عورت جو شوہر کے گھر میں صرف اس لیے خاموش رہتی ہے کہ اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو، کیا یہ قربانی ہے یا اپنے حق سے دستبرداری؟ 
اور وہ رشتے دار جو ہر تقریب پر رقم دے کر آپ کی عزت بڑھاتے ہیں، کیا یہ محبت ہے یا ایک چپکے سے طاقت کا کھیل؟ 
 
یہ سب سوال ایک ہی دھارے میں بہتے ہیں، ہمارے رشتوں میں پیسہ کب مدد بنتا ہے اور کب شرط؟ کب ہم دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے اپنی خوشیاں گروی رکھ دیتے ہیں؟ 

مالی مدد کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل: 

تم میری بیٹی کو لے لو، ہمیں بس ہسپتال کا بل اُتارنا ہے:

پاکستانی معاشرے میں غربت اور رشتوں کا ایک عجیب رشتہ ہے۔ کچھ گھرانوں میں بیٹی کی شادی اس کے میرٹ سے نہیں، بلکہ خاندان کی ضروریات سے طے ہوتی ہے۔ جیسے وہ خاتون جس کے والد کا انتقال ہو گیا، اور ماں نے بیٹی کو اس لیے رشتہ قبول کروایا کہ داماد نے علاج کے اخراجات اُٹھا لیے۔ کیا یہ بیٹی کی زندگی کا سودا نہیں؟ 

بیرونِ ملک بیٹا ہے نا! پھر تو ہم سب کے مالک ہیں:

بیرونِ ملک کام کرنے والے نوجوان کو خاندانی ATM سمجھا جاتا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا کام اُس کی ذمہ داری، ہر رشتے دار کی فرمائش اُس کا فرض۔ مگر کیا کبھی کوئی اُس سے پوچھتا ہے کہ وہ کتنی تنہائی میں رہتا ہے؟ کتنی محنت سے کمائی گئی رقم کو حق سمجھ کر مانگا جاتا ہے۔ 

شوہر کی تنخواہ ہی تو عزت ہے: 

عورت کی عزت اور اختیار اکثر شوہر کی آمدن سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ اگر شوہر کم کماتا ہے تو عورت کو قناعت سکھائی جاتی ہے، اور اگر زیادہ کماتا ہے تو اُس کے ڈر سے خاموش رہنے کو عقلمندی۔ کیا یہ عورت کی ذات کا استحصال نہیں؟ 

آزادی کا فریب: 

کہا جاتا ہے کہ مالی مدد سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، مگر یہ مضبوطی اکثر اُس درخت کی مانند ہوتی ہے جس کی جڑیں کھوکھلی ہوں۔ مثال کے طور پر وہ بہن جس نے بھائی کی تعلیم کے لیے اپنا گہنا بیچ دیا، مگر جب اُسے نوکری کی ضرورت پڑی تو بھائی نے کہا: ابھی گھر کا خرچہ تو سنبھالو!۔ کیا یہ احسان واپس لینے کا دباؤ نہیں؟ 

کیا حل ہے؟ 

ہاں کہنے سے پہلے کیوں پوچھیں: جب بھی کوئی رشتہ مالی معاونت کی بنیاد پر طے ہو، خود سے پوچھیں: کیا میں یہ فیصلہ آزادانہ طور پر کر رہا ہوں یا مجبوری میں؟ 

حق اور احسان میں فرق سیکھیں: مالی تعاون کو احسان بنانے کے بجائے حق سمجھیں۔ مثلاً بیوی کا گھر چلانا شوہر کا فرض نہیں، دونوں کی ذمہ داری ہے۔ 

بات چیت کی دیوار توڑیں: خاندان میں کھل کر بات کریں۔ ماں باپ بچوں سے کہیں: تمہاری خوشی ہماری دولت ہے، اور بچے والدین سے کہیں: آپ کی عزت ہمارے لیے سب کچھ ہے 

ہمارے رشتے ہمارے اعضاء ہیں۔ اگر انہیں صرف پیسے کی ڈور سے باندھا جائے گا تو یہ ڈور کبھی نہ کبھی کٹ جائے گی۔ سچی مضبوطی تو اُس وقت آتی ہے جب رشتوں کی بنیاد دل ہو، دماغ نہیں۔

Leave a comment

0.0/5

Office
HUM NETWORK LIMITED PLOT 2A KHAYABAN-E- SUHRWARDY ROAD SECTOR G-6 1-1

thalnaturals3@gmail.com

+92 3252552222
Newsletter

Safdar Ali 2024©. All Rights Reserved.